• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدا لگتی
قطر تنازع، پاکستان ثالثی کیلئے تیار، سعودی عرب، قطر، ایران سے تعلقات اہم ہیں، مسلم امہ بھی معاملہ سلجھانے میں کردار ادا کرے، وزیراعظم نواز شریف کی گفتگو، انہوں نے مزید کہا بحران کے حل کے لئے بھرپور کوشش کریں گے، موجودہ سیناریو میں وزیراعظم محمد نواز شریف کا یہ بیان معتدل، متوازن اور برحق ہے، پاکستان کی یہی خارجہ پالیسی ہے اور اس کا فائدہ نہ صرف مسلم امہ کو ہو گا بلکہ خود پاکستان کے لئے بھی باعث سرخروئی ثابت ہو گا، تنقید کا حق تب ہوتا ہے جب اس کے ذریعے غلطی کی نشاندہی ہو اور نیت تعمیری ہو تخریبی یا حرف زنی برائے حرف زنی ہو۔ پاکستان کی پوزیشن بعینہٖ وہی ہے جو وزیراعظم نے اپنے الفاظ میں بیان کر دی۔ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اس سے آگے جانا درست نہیں ہو گا، عدلیہ جو کچھ کر رہی ہے وہ بھی پاکستان کے مفاد میں ہے، قومی مفادات کے حوالے سے منفی سیاست، نازیبا بیان بازی خود ن لیگ کی صحت کے لئے مفید نہیں، قومی رائے کو بگاڑنے کے بجائے سنوارنا ہی دانشمندی اور آئندہ انتخابات میں لیگی سیاست کے لئے بہتر ہے، صبر اور ضبط کے بڑے فوائد ہیں، بالخصوص جب کوئی اقتدار میں ہو تو سخت سست برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرے، ن لیگ کی قیادت اس انداز سے پارٹی کی ٰتطہیر کرے کہ خالی جگہ کو بہتر انسان لا کر پُر کر دے تاکہ وزن بھی کم نہ ہو اور پارٹی کمیتی و کیفیتی دونوں لحاظ سے آگے بڑھے، چاپلوسوں عہدوں کے طلب گاروں، طالع آزمائوں اور نادان دوستوں سے نجات حاصل کرے، ہم نہیں سمجھتے کہ حکومت دانستہ عوام پر لوڈ شیڈنگ مسلط کئے ہوئے ہے مگر یہ بات بھی وزن رکھتی ہے کہ ہم کسی کی خاطر کیوں ایران سے سستی بجلی حاصل نہیں کرتے اپنے مفادات کی قیمت پر کسی کو خوش رکھنا درست عمل نہیں، باقی ہر ناقد کو یہ بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اگر حکومت میں وہ ہوتا تو کیا کرتا، کیونکہ اقتدار کے اندر اور باہر میں کافی فرق ہوتا ہے، پاکستان کو باہر سے اتنا خطرہ نہیں جتنا اندر سے ہے ہر سیاسی جماعت، تاجر برادری، عوام اور بالخصوص جو معزز افراد وزارتوں کے حامل ہیں احتیاط کا دامن نہ چھوڑیں، کیا کہنا ہے، کتنا کہنا ہے کس طرح کہنا ہے یہ ہم سب کو اپنے اجتماعی مفاد کے لئے سوچنا ہو گا، اور بولنے سے پہلے تولنا ہو گا۔
٭٭٭٭
بچ موڑ توں!
بلاول زرداری نے کہا ہے:تصادم ہوا تو حکومت نہیں آئینی اداروں کا ساتھ دیں گے منہ سے اچھی بات کہنا چاہئے، کیونکہ کہتے ہیں فرشتے آمین کہہ دیتے ہیں، اور فرشتوں کی آمین ہماری والی سے وکھری ٹائپ کی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نہ کرے کہ اس پیارے پاکستان میں تصادم ہو، مہذب اختلاف ضرور ہو لیکن گالم گلوچ نہ ہو، کسی نوجوان کا ہاتھ کسی بزرگ کے گریبان تک نہ پہنچے تاکہ وہ یہ بددعا نہ دے کہ تیرا ہاتھ جام تک نہ پہنچے۔ ہم بلاول صاحب سے مودبانہ سوال کریں گے کہ کیا حکومت ایک آئینی ادارہ نہیں ہوتا؟ ہم یہ نہیں کہتے کہ اپنا موقف کوئی بیان نہ کرے گزارش اتنی سی ہے کہ لفظوں کا انتخاب، انتخابات جیسا نہیں ہونا چاہئے، عمران خان نے بنی گالہ کے ٹیلے سے آواز دی ہے بلکہ کسی ہے، مسلم لیگ ن جو کر رہی ہے ہم بھی کریں گے۔ دھرنوں کی پریکٹس ہے، آپ ذرا سیاسی کوالفیکیشن پر غور فرمائیں کہ ہماری سیاست دھرنوں اور بدکلامی کے جھرنوں کی پریکٹس بن کر رہ گئی ہے، خاتون وزیر مریم اورنگزیب پر تنقید کو کار ثواب سمجھا جاتا ہے، اگر وہ کبھی میاں صاحب کی جائز تعریف کر دیتی ہیں تو کونسی آفت ٹوٹ پڑتی ہے۔نہال، دانیال اور طلال یہ تین عناصر ہوں تو بنتا ہے سیاستدان، ان کے کہے کا بھی کوئی بُرا نہ منائے کیونکہ ہر شخص کسی نہ کسی کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے، پی ٹی آئی، پی پی والے بھی اگر روزے کے ساتھ عید تک چپ کا روزہ رکھ لیں تو ڈبل ثواب ملے گا، ملک ہمیشہ کی طرح نازک موڑ سے گزر رہا ہے اس لئے بچ موڑ توں!
٭٭٭٭
تلخ و شیریں
میٹھا نگلیں تو شوگر، اگلیں تو جادو، اور وہ بھی جو سر چڑھ کر بولے، ایک بات سمجھ سے بالا ہے کہ ہم نیکی بھی غصے اور طنز کے انداز میں کیوں بیان کرتے ہیں، ہماری گفتگو میں دھمکی، تحقیر، انتقام، تعصب، جھوٹ بروزنِ سچ اس قدر سرایت کر گیا ہے کہ سب کا کمپلیٹ بلڈ ٹیسٹ ہونا چاہئے کہ آخر ہم کیا کھاتے ہیں کہ خون میں خون باقی نہ رہا۔ ہم نہیں چاہتے کہ کسی کی بھی ’’شیریں سخنی‘‘ اس کے اسم گرامی کے ساتھ کریں، کہ اصلاح گناہ گار کی نہیں گناہ کی ہونی چاہئے جو اچھے بھلے انسان کو محرم سے مجرم بنا دے اور وہ وفا کی جگہ دغا پر اتر آئے، اخبار اٹھا کر دیکھیں، کوئی چینل ملاحظہ فرمائیں کسی سے غم غلط کرنے کے لئے بات چیت کریں تو یوں لگتا ہے پورے ملک میں زبردست ہجویہ مشاعرہ برپا ہے، اور جو نہ کہنا تھا وہ بھی کہہ ڈالا مگر پھر بھی سکون نہ آیا، یہ بیمار بہار تو صحت مند خزاں سے بدتر ہے اپنی ’’محترم‘‘ میں کو پروان اور دوسرے کی میں کو کچل ڈالنا ہی اگر تحریر، تقریر اور تصویر کا ہدف ہو گا تو پاکستان کس کا پاکستان بنے گا یہ ہم نہیں بتاتے کہ سب کو سب کچھ معلوم ہے، ’’مَیں‘‘ اس لفظ کو نہیں کہتے جس سے ہم اپنے جملے کو شروع کرتے ہیں بلکہ ’’مَیں‘‘خود پرستی جیسا شرک ہے جو ہمارے باطن کو بتکدہ بنا دیتا ہے، اچھی اچھی باتیں لکھتے وقت ضمیر بہت مارتا ہے لیکن وطن عزیز پر ڈھٹائی کا راج پھر بُرا سوچنے اور اچھا لکھنے باز نہیں آتے، ایک قصبے میں ایک صوفی بزرگ کے مزار پر جانا ہوا تو اس قصبے کو بھی دیکھا ایک دروازے پر دستک دی اندر سے آواز آئی محمد رسول اللہ کواڑ کھلا صاحب خانہ نے مصافحہ کیا اور نہایت ادب سے کہا اس بستی میں دستک کے بجائے لا الٰہ الا اللہ پکارا جاتا ہے، اور صاحب خانہ جواب دیتا ہے محمد رسول اللہ۔ اسی طرح آج بھی آپ ابو الحسن خرقانی کی خانقاہ جائیں تو آپ کو پتھر پر کندہ یہ تحریر دیکھنے کو ملے گی ’’ہر کہ درایںسرا درآرمد نانش برہید از ایما نش میر سید‘‘ (جو بھی اس خانقاہ میں آئے اسے کھانا پوچھو مذہب مت پوچھو‘‘
عشق میں کیسی چوری!
....Oپرویز خٹک:وفاق اور واپڈا خود بجلی چوری کرتے ہیں۔
ان کے کام کا تو پتہ چل گیا یہ بھی تو بتائیں آپ کیا کام کرتے ہیں؟
....Oرحمٰن ملک:امریکہ کو نادرا ریکارڈ تک رسائی دینا ثابت کر دیں مستعفی ہو جائوں گا۔
70برس بیت گئے ثابت کرنے میں آخر یہاں کام کب شروع ہو گا، لمبے دیوانی مقدمے تو سنے تھے، دیوانوں کے مقدمے کب حل ہوں گے؟
....Oشہباز شریف:جھوٹ، بے بنیاد الزامات کی سیاست کرنے والوں کے دن گنے جا چکے۔
مگر ہماری گنتی ہی کمزور ہے، دو کا پہاڑہ تک نہیں سنا سکتے، آپ نے دن گن لئے ہیں تو تعداد بھی بتا دیں تاکہ عوام اپنی بہتری کا تعین کر سکیں۔
....Oجمشید دستی:کسانوں کے لئے پانی چوری پر گرفتار۔
دستی صاحب غلطی ہو گئی آپ سے، جاگیر داروں کے لئے پانی چوری کرتے تو انعام بھی ملتا، بہرحال چوری تو چوری ہے چاہے کسانوں کے لئے ہو یا جاگیرداروں کے لئے۔

تازہ ترین