• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موت کے منہ سے واپس آنے والے مولانا عبدالغفور حیدری مجھے مستونگ میں خودکش حملے کی دل دہلا دینے وا لی کہانی سنا رہے تھے۔ اس حملے میں 27افراد شہید ہوئے اور 40سے زائد زخمی ہوئے۔ جب حیدری صاحب نے بتایا کہ وہ ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور حملے میں ان کا ڈرائیور اور پچھلی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے دونوں افراد شہید ہوگئے تو میں نے حیرانگی سے پوچھا کہ کیا آپ کی گاڑی بلٹ پروف نہیں تھی ؟ حیدری صاحب نے اپنی بے بسی اور بیچارگی کو سادہ سی مسکراہٹ کے پیچھے چھپاتے ہوئے نفی میں سر ہلایا تو مجھے یاد آیا کہ یہی سوال میں نے کچھ دن پہلے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی سے بھی کیا تھا اور انہوں نے بھی نفی میں سر ہلایا تھا۔ مولانا عبدالغفور حیدری خودکش حملے میں زخمی تو ہوئے لیکن معجزانہ طور پر بچ گئے تھے۔ انہیں یہ معلوم تھا کہ ان پر حملہ کرنے والے بدبخت کا تعلق جنوبی وزیرستان سے تھا۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ حملہ آور کو داعش والے مستونگ لائے تھے۔ انہیں یہ بھی پتا تھا کہ داعش نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی العالمی، جماعت الاحرار، جند اللہ اور بی ایل اے سے اتحاد کر رکھا ہے لیکن یہ سب بتانے کے بعد مجھ سے سوال کر ڈالا۔ ’’سائیں یہ بتائیے کہ داعش کے پیچھے کون ہے ؟‘‘ میں نے انہیں بتایا کہ کچھ عرصہ قبل سابق افغان صدر حامد کرزئی نے الزام لگایا ہے کہ داعش کے پیچھے امریکہ ہے۔ مغربی میڈیا میں یہ خبریں عام ہیں کہ امریکہ کے علاوہ اسرائیل بھی داعش کی مدد کر رہا ہے اور غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ داعش زیادہ تر حملے مسلمانوں کے خلاف کرتی ہے اور اگر مانچسٹر یا لندن میں کسی حملے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے تو اس حملے کا اصل نقصان بھی مقامی مسلمانوں کو ہوتاہے۔ داعش کا ایجنڈا مسلمانوں کو کمزور کرنا اور ان میں فرقہ وارانہ نفرت پھیلانا ہے اور اب کسی کو کوئی شک نہیں رہا کہ داعش پاکستان میں بھی موجود ہے۔ مولانا حیدری پرحملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی اور کچھ دن کے بعد بلوچستان میں ایک فوجی آپریشن میں حیدری صاحب پر حملے کے ماسٹر مائنڈ کی ہلاکت کا دعویٰ بھی کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کافی عرصہ تک پاکستان میں داعش کے وجود سے انکار کرتے رہے لیکن اب اس معاملے پر وہ خاموش ہیں۔
مولانا عبدالغفور حیدری جمعیت علماء اسلام (ف) کے سیکرٹری جنرل ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن کے دست راست ہیں۔ انکی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اہم قومی و بین الاقوامی معاملات پر ان کے دو ٹوک نقطۂ نظر کا تجزیہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ انکی زندگی پر حملہ کرنے والا مسلمانوں کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔ مولانا عبدالغفور حیدری کا تعلق قلات کے ایک پسماندہ علاقے سے ہے۔ لہڑی قوم کی ذیلی شاخ ابراہیم زئی نوتانی کا سلسلہ رند قبیلے سے ملتا ہے اور ان کے خاندان کا پیشہ گلہ بانی تھا۔ بچپن میں حیدری صاحب بھی اپنے والد کی بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا یہ پہلو کبھی کسی سے نہیں چھپایا کیونکہ حضرت ابراہیم ؑ سے لیکر حضرت محمدﷺ تک کئی انبیاءؑ اپنے بچپن میں بھیڑ بکریاں چراتے رہے۔ حیدری صاحب نے سندھ اور جنوبی پنجاب کے مدارس سے تعلیم حاصل کی۔ اسلامیات اور عربی میں ایم اے کیا اور جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف بحالی جمہوریت کی تحریک میں فوجی عدالت سے قید کی سزا پائی۔ انہوں نے مچھ اور سبی کی بدنام زمانہ جیلوں میں قید کاٹی۔ میری ان سے پہلی باقاعدہ ملاقات 1994ء میں ہوئی جب میں نے ان کے ساتھ سوئٹزر لینڈ کا ایک سفر کیا۔ اسی زمانے میں حیدری صاحب نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ فلسطین پر عربی میں ایک ایسی شاندار تقریر کی جس پر کئی عرب سفارتکار بھی دنگ رہ گئے۔ دیو بندی مکتبہ فکر سے تعلق کے باوجود انہیں ایران کی قم یونیورسٹی میں بھی تقاریر کی دعوت دی جاتی ہے کیونکہ وہ رواداری اور اعتدال کے قائل ہیں۔ وہ سعودی عرب کی نسبت ایران کے زیادہ دورے کر چکے ہیں۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ مل کر افغانستان میں قیام امن کیلئے سرتوڑ کوششیں کی ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 1995ء میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے مولانا فضل الرحمٰن کی مشاورت سے مولانا عبدالغفور حیدری اور مولانا محمد خان شیرانی سمیت کچھ دیگر علماء کا ایک وفد کا بل بھیجا جس نے برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود سے ملاقاتیں کیں اور خوست میں طالبان کی قیادت سے بات چیت کے ذریعہ ان متحارب گروپوں میں مصالحت کی کوشش کی۔ بعد کے سالوں میں ملا محمد عمر اور اسامہ بن لادن کے درمیان کچھ اختلافات پیدا ہوئے۔ ملا محمد عمر صرف افغانستان میں دفاعی جہاد کے حامی تھے جبکہ اسامہ بن لادن افغانستان میں بیٹھ کر امریکہ پر حملوں کی منصوبہ بندی بھی کرتے اور اعلان جنگ بھی کرتے تھے جس کی وجہ سے طالبان کی حکومت پاکستان اور سعودی عرب کے دبائو کا شکار ہو جاتی تھی۔ غفور حیدری صاحب نے مفتی نظام الدین شامزئی، مولانا شیر علی شاہ اور مولانا فضل محمد یوسفزئی کے ہمراہ افغانستان جاکر ملا محمد عمر اور اسامہ بن لادن سے ملاقاتیں کیں اور ان میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حکومت پاکستان نے طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر رکھے تھے اور طالبان کی قیادت پاکستان کے علاوہ امریکہ کے دورے بھی کیا کرتی تھی۔ نائن الیون کے بعد دنیا بدلی تو جنرل پرویز مشرف نے جن علماء کو جیلوں میں قید کیا ان میں مولانا عبدالغفور حیدری بھی شامل تھے۔ قید کے زمانے میں حیدری صاحب نے قلم کے ذریعہ محاذ کھول دیا۔ وہ جیل سے مضمون لکھ کر نور احمد کاکڑ کے ذریعہ مجھے بھیجتے اور میں ان کے مضامین شائع کراتا تھا۔ یہ ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد آپ کو یہ بتانا ہے کہ حیدری صاحب کا بیک وقت طالبان، ایران، شمالی اتحاد اور اسامہ بن لادن سے رابطہ رہا ہے۔ وہ توڑنے والے نہیں جوڑنے والے شخص ہیں۔ تخریب کی نہیں تعمیر کی بات کرتے ہیں۔ اعتدال اور امن کے داعی ہیں اور اسی لئے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیلئے ان کا نام آصف علی زرداری نے تجویز کیا حالانکہ وہ نواز شریف کے اتحادی تھے۔ فروری 2017ء میں انہیں اقوام متحدہ میں انٹر پارلیمنٹری یونین کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی لیکن انہیں امریکی ویزہ دینے سے انکار کر دیا گیا جس پر چیئرمین سینیٹ نے پورے وفد کا دورہ منسوخ کر دیا۔ جس شخص کو فروری میں امریکہ نے ویزہ دینے سے انکار کر دیا اس شخص پر مئی میں داعش نے خودکش حملہ کر دیا۔ آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ داعش کس کی دوست اور کس کی دشمن ہے؟
حیدری صاحب پر حملے کے کچھ دنوں بعد داعش نے ایرانی پارلیمنٹ اور امام خمینی کے مزار پر بھی حملہ کر دیا۔ داعش سعودی عرب اور ترکی میں بھی حملے کر چکی ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ حیدری صاحب پر حملہ کرنے والے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دشمن ہیں لیکن بدقسمتی مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ حیدری صاحب اور مولانا فضل الرحمان کو چاہئے کہ اقتدار کی سیاست چھوڑیں اور مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑانے والی طاقتوں کے مقابلے کیلئے مسلمانوں کو متحد کریں۔

تازہ ترین