• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عورت آمد دلیل عورت
سینیٹ اجلاس:شیری رحمٰن کا ’’لیڈی سینیٹر‘‘ پکارنے پر اعتراض و احتجاج۔ فسانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا مگر ہم ابھی تک مرد عورت کے مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انسان کی قدر و منزلت سے اس کی اصلیت سے بے خبر ہیں، انسان کو مرد و زن کے خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا، ہنوز ہم ایک عورت سے بات کرتے وقت استہزاذ کی کیفیت سے باہر نہیں آ سکے، ایک مریض بھی اس وقت اپنے بال سنوارنے لگتا ہے جب اسےمعلوم ہو کہ لیڈی ڈاکٹر رائونڈ پر ہے، اور وہ منظر سامنے آ جاتا ہے کہ؎
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
گویا وہ مریض کو لیڈی زیادہ اور ڈاکٹر کم لگتی ہے، شیری رحمٰن ایک انسان ہیں، اور انسان کچھ بھی ہو سکتا ہے، اس لئے یہ لیڈی ڈاکٹر، لیڈی سینیٹر کہنا بھی بیمار رویہ ہے مگر ہمیں معلوم ہے اسے کوئی ماننے کو تیار نہیں ہو گا، یہاں تک بات پہنچ گئی ہے خوش ذوقی کی کہ لیڈی واش روم بھی لکھا ہوتا ہے، لگتا ہے پوری دنیا میں اتنی ترقی کے باوجود مرد کو اپنا اعتبار نہیں کہ کہیں اس کا پائوں پھسل نہ جائے کسی ماہرو کو دیکھ کر جان نکل نہ جائے، حیرانی ہے کہ خاتون وزیراعظم، صدر، مجسٹریٹ، جج، ایس ایچ او سے پہلے کوئی لفظ لیڈی نہیں لگاتا بلکہ اس پر نیک نظر ڈالتا ہے، اگر کوئی عورت ہے تو یہ انڈرسٹوڈ ہے کہ وہ عورت ہے اسے عورت عورت کہہ کر امتیازی انداز اختیار کرنا بیمار ذہنیت ہے، عورت کی مثال آفتاب جیسی ہے۔
یعنی ’’عورت آمد دلیل عورت‘‘، اسے عورت ثابت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں چاہے کوئی سینیٹ چیئرمین ہی کیوں نہ ہو اور چاہے کوئی بھی عورت ہی کیوں نہ ہو، کسی کا اعتراض و احتجاج سر آنکھوں پر، آئندہ کوئی بھی کسی کو لیڈی سینیٹر کہہ کر نہ پکارے۔
٭٭٭٭
’’کَڈو‘‘ عیدی!
خبر ہے کہ پولیس نے عیدی وصولی مہم شروع کر دی ہے، اور بڑی ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے ہماری عیدی! اور چار و ناچار پولیس متاثرہ عوام پولیس اہلکار کو عیدی دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، کیا کسی ملک میں ان کی خوشی کے تہواروں پر وہاں کی پولیس کہتی ہے کرسمس دو، ہولی دیوالی دو وغیرہ وغیرہ، ایک ’’ہمارا پاکستان ہے تمہار پاکستان ہے‘‘ جہاں سینہ تان کر پولیس کہتی ہے ’’کڈو عیدی‘‘ خادم اعلیٰ پنجاب ہی یہ کارنامہ انجام دے سکتے ہیں کہ شہریوں کے بچوں کی عیدی پر ’’پُلس ڈاکے‘‘ کو روک دیں ورنہ یہ فورس فاسفورس ہے بہت جلدی آگ پکڑ لیتی ہے، ایک دفعہ ادا کرنے کے باوجود یہ کہہ کر پھر مانگی جاتی ہے کہ وہ تو تم نے پچھلے چوک والوں کو دی تھی، یہاں سے نئے تھانے کی حدود شروع ہے اس لئے اس تھانے کے ساتھ سوتیلا پن اچھا نہ ہو گا، اور شہری کو دوسری بار بھی عیدی ادا کرنا پڑ جاتی ہے، ہم آئی جی پنجاب سے بھی گزارش کریں گے کہ وہ اپنے جوانوں کو روکیں ورنہ لوگ کہیں گے حصہ اوپر تک جاتا ہے، سڑک پر جو بھی دو، تین یا چار پہیوں پر سوار دکھائی دیتا ہے اسے ’’عید ناکے‘‘ پر روک لیا جاتا ہے۔ جوں جوں عید قریب آ رہی ہے کڈو عیدی مہم زور پکڑتی جا رہی ہے، رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ عیدی وصولی مہم چلانے والے پولیس اہلکاروں نے وہ تمام اقدامات کر رکھے ہیں جن کے باعث ان کو ٹریس نہ کیا جا سکے، ہم نے پوری روداد و فریاد اہل شہر پیش کر دی ہے تاکہ حکومت پنجاب کو یہ 70سالہ پرانا فتنہ دبانے میں آسانی ہو، کیا عید منانا ٹریفک کی خلاف ورزی ہے جو عید چالان کیا جائے؟ پنجاب حکومت کی حدود میں یہ واحد خرابی ہے اسے درست کر دیا جائے باقی سب اچھا ہے، کسی کو کوئی شکایت نہیں، ایک تو بندہ پاکستانی شہری ہو، دوسرے وہ انسان اور اوپر سے روزہ دار ہو گرمی سمیت پھر کہا جائے کڈو ساڈی عیدی تو یہ سراسر ظلم ہے۔
٭٭٭٭
سیاسی گفتگو منع ہے
تمام شہریوں سے اپیل ہے کہ وہ اگر صحت مند رہنا چاہتے ہیں، بھرپور عید بمعہ چاند رات منانے کے خواہشمند ہیں تو اپنے سینے پر ایک اسٹیکر لگا دیں جس پر لکھا ہو ’’سیاسی گفتگو منع ہے‘‘ ہماری سیاسی گفتگو سے اس لئے بھی کوئی فائدہ نہیں کہ ہم اپنے ہاتھ کٹوا چکے ہیں، اور آئندہ انتخابات تک نئے ہاتھ اُگ آئیں گے وہ بھی کٹوانے کے لئے آمادہ ہیں، ہمیں من حیث القوم معاف کرنا ایک متعدی بیماری ہے جس کا غیر طبی کتابوں میں یہ نام درج ہے کہ ’’آ بیل مجھے مار!‘‘ یہ لاعلاج مرض ہے، کیونکہ تھپڑ کھانے میں جو مزا ہے وہ کسی کی انگشت حنائی سے اپنا رخسار سہلانے میں بھی نہیں، ہم اگر سیاست لکھتے ہیں ہماری تو مجبوری ہے، اس لئے ہماری بھی صرف غیر سیاسی باتیں پڑھیں سیاسی تحریروں کو زیب داستاں سمجھ کر نظر انداز کر دیا کریں ہم قلم انداز نہیں کر سکتے، سیاسی گفتگو صرف وہ کر سکتے ہیں جنہیں کچھ ملتا ہے بھلا ایک عام شہری کو اس سے اب تک کیا ملا ہے؟ جو وہ بلاوجہ اپنا بلڈ پریشر اوپر نیچے کرتے رہتے ہیں، سیاست دراصل قابل اور نیک افراد کا خلق خدا کو ہر خرابی سے بچانا اور سیدھے راستے پر چلانا ہے، مگر یہ سیاست کی تعریف ہے جو صرف سیاست کے طالب علموں کے لئے مفید ہے، وہ سیاست جو میدان میں ہے میدانی و بازاری سیاست ہے، اس جھنجھٹ میں وہ پڑتے ہیں جو ہر جھنجھٹ سے آزاد ہیں، جن کے پاس ہماری دی ہوئی اتنی دولت ہے کہ انہیں سمجھ نہیں خرچ کہاں کریں، پھر وہ ترقیاتی کاموں پر خرچ کر کے اسے دگنا کر لیتے ہیں، ہم نے عوام کے بہتر مفاد میں سیاست، سیاسی گفتگو کے مضر اثرات سے انہیں آگاہ کر دیا ہے اب کہنے کو یہی بچا ہے کہ اگے ترے بھاگ لچھیئے !
٭٭٭٭
پاکستان ! تجھے سلام
....Oامریکہ بھی قطر کے خلاف میدان میں آ گیا، ٹرمپ کی وارننگ پر اتحادی خوش۔
لگتا ہے ’’بش دور‘‘ واپس آ چکا ہے۔
....Oشیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔
’’جی آیاں نوں‘‘
....Oریاض میں دہشت گرد حملوں کا خطرہ، امریکی سفارتخانے کا اپنے شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایت۔
نہ جانے امریکہ کو کیسے حتمی علم ہو گیا ہے کہ ریاض میں دہشت گرد حملے ہونے والے ہیں، وہ یہ بھی جانتا ہو گا کہ ان حملوں کو قطر کے کھاتے میں ڈال کر عربوں کو عربوں پر چڑھائی کرنے میں مدد ملے گی،
....Oبلاول زرداری:اکیلا بھی رہ گیا تو ملک اور جمہوریت کے دشمنوں سے لڑوں گا،
گویا اکیلا پن محسوس ہونے لگا ہے مگر پھر بھی بلاول تیری جرأت کو سلام۔
....Oگلوکار طاہر شاہ:نواز شریف کے لئے گانا گایا تو خیبر پختونخوا حکومت ناراض ہو گئی،
اپنے وزیراعظم کے لئے کسی آرٹسٹ کو گانا گانے سے روکنا فنون لطیفہ پر حملہ ہے، ہم سے کسی نے پوچھا فنون لطیفہ کی تعریف کیا ہے؟ جواب دیا! ہمارے ملک کے تمام لطیف افراد کے مجموعے کو فنون لطیفہ کہتے ہیں۔

تازہ ترین