• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تمام دُنیا عالم اضطراب میں ہے، امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر سنجیدہ رویوں نے دُنیا بھر کو عدم استحکام کا شکار کردیا ہے اور مسلم دُنیا میں خونریزی کو عام کردیا ہے۔ کوئی ایک مسلمان ملک مشکل سے ایسا ملے گا جو دہشت گردی کا شکار نہ ہو وگرنہ سب کے سب دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں، سرحدوں کی تبدیلی کا مرحلہ درپیش ہے، خون کی لکیرں سے سرحدوں کا تعین کیا جارہا ہے ۔ مسلم دُنیا اگرچہ اِس دہشت گردی کا سدباب تو نہیں کرسکتی البتہ وہ انسان کے دکھ درد میں کمی کرنے کی کوشش کررہی ہے۔روایتی طور پر مسلمانوں کے جو طور طریقے ہیں وہ اس پر قائم ہیں، مسجدیں آباد ہیں، روزے کے افطار کا اہتمام انتہائی خلوص سے کیا جاتا ہے، حکم اللہ کی تعمیل میں غریبوں، یتیموں، دہشت گردی کی زد میں آئے ہوئے لوگوں کی مدد حکومتی اور عوامی سطح پر بے دریغ کی جارہی ہے، مسلکی تصادم کو جہاں امریکہ ہوا دے رہا ہے تو کچھ اُس کو دبانے میں لگے ہوئے ہیں، جس میں وہ اللہ کی مدد سے کامیاب بھی ہوجائیں گے، پاکستان میں دکھی انسانیت کیلئے کئی ادارے سرگرم عمل ہیں اور وہ حقوق العباد کو ادا کرنے میں مہو ہیں، پہلے عبدالستار ایدھی دُنیا بھر میں ضربِ المثل کے طور پر لئے جاتے تھے ۔اب پاکستان میں بے شمار ادارے انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں جس میں مولانا بشیر فاروقی صاحب کا ادارہ سیلانی پیش پیش ہے، حیرت انگیز طور پر وہ ایک مثالی تنظیم بن کر ابھری ہے اور ایک لاکھ پچیس ہزار افراد کو روزانہ امداد فراہم کررہی ہے۔ اُس کے کوئی دو ہزار کے قریب رضاکار ہیں اور اُن کی پاکستان میں اور پاکستان سے باہر 125 شاخیں ہیں، ان کا یہ عزم ہے کہ وہ اس سال 3 ہزار 630 ملین روپے غریبوں، یتیموں اور حاجت مندوں کی ضروریات پورا کرنے میں خرچ کریں گے۔ تعلیم کا شعبہ اُن کا خاص ہدف ہے جس میں گرین ہائوس اسکول، سیلانی آئی ٹی ٹریننگ پروگرام، سیلانی فنی تعلیم، سیلانی مائیکرو سافٹ، آن لائن قرآن اکیڈمی، سیلانی انٹرنیٹ پروگرام، اس کے علاوہ سیلانی علمیہ یونیورسٹی کی تعمیر کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ صحت کے شعبے میں 36 مراکز ہیں، خصوصی کلینک، ایمرجنسی میڈیکل تھراپی، زچہ و بچہ کی دیکھ بھال، لیباریٹری کی سہولت، بلڈ بینک، بے روزگار مسافر اور ضرورت مندوں کو خوراک فراہم کرنے کے 46 دسترخوان ہیں۔ سوشل ویلفیئر میں خاندانوں کو گود لینا، شادیوں کے پیکیج، سیلانی فلیٹ اسکیم، سیلانی ہائوسنگ اسکیم، استعمال شدہ اشیا کا استعمال، رمضان پیکیج اور سحری و افطاری کا اہتمام، آگ بجھانے کی گاڑیاں، ایمبولینس، حج سروسز، مساجد کی تعمیر، قدرتی آفات کے وقت مدد کو پہنچنا وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ حال ہی میں اُن کے ایک پروگرام میں شریک ہونے کا موقع ملا، گورنر سندھ تشریف لائے ہوئے تھے، اُن کے ساتھ سابق گورنر سندھ کے علاوہ مختلف محکموں کے سیکریٹریز، وزرا، پروفیسراور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے معتبر اور معزز حضرات اِس پروگرام میں شریک تھے۔ واقعی منظر انتظامی طور پر متاثرکن تھا جو خلوص کا پیغام اور دیدہ زیبی کا دلفریب منظر پیش کررہا تھا، جس کا انتظام کسی ایسے شخص نے بطور امداد کیا تھا جو مولانا بشیر فاروقی کا دلدادہ تھا، اُن کی شخصیت دل موہ لینے والی ہے مگر اس سے بھی زیادہ اہم بات ان کے کام ہیں جو اُن کے ادارے کو مقبول بنا رہے ہیں، ایک عجیب بات یہ ہے کہ اپنے دور جوانی میں، میں نے اکثر یہ سوال کیا کہ کیا ہمارے یہاں مخیر حضرات نہیں ہیں کہ وہ دکھی انسانیت کی خدمت کرسکیں، اس وقت کراچی، حیدرآباد، لاہور اور دیگر جگہوں کے ہندوئوں کے بنائے ہوئے اسپتال، اسکول نمایاں نظر آتے تھے، اب مسلمان ہر جگہ بڑھ چڑھ کر غریبوں کی مدد کو آرہے ہیں، روزہ کشائی اور سحر کے معاملے میں تو پاکستانیوں اور خصوصاً کراچی کے عوام کا فی الحال ثانی نہیں ہے۔ اگر اس باب میں کچھ میں کرسکتا ہوں تو حاضرب ہوں تاہم کراچی میں یہ دیکھتا ہوں کہ روزے کے وقت نوجوان بچے، پانی کی بوتلیں، کجھوریں، پکوڑیوں کا پیکٹ لئے آپ کی گاڑی کی طرف اس طرح آتے ہیںکیا ادا ہے اللہ کو ضرور پسند آتی ہوگی، وہ یہ اسلئے کرتے ہیںکہ گاڑی سواروں یا مسافروں کے پاس افطاری کا اہتمام نہ ہو تو وہ فراہم کردیں۔ انتہائی دل کش منظر ہوتا ہے، دہشت گردی کے الزامات اور اس سے جڑا دکھ دب کر رہ جاتا ہے کہ ہماری قوم کے یہ بچے بھی تو ہیں جو کسی لالچ یا صلے کے کام کررہے ہیں، کوئی آکر یہاں دیکھے کہ روزہ داروں کیلئے ہمارے بزرگ اور نوجوان کیا کیا اہتمام کرتے ہیں، اس اہتمام میں تو مسلم دُنیا کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا، میں نے سوشل میڈیا پر دیکھا کہ کربلا میں لاکھوں افراد کی روزہ کشائی کیلئے باقاعدہ میزیں سجائی جاتی ہیں اور افطاری میں کھانے میں انواع و اقسام کے فروٹ و اشیا موجود ہوتی ہیں۔ یہ صورتحال دیکھ کر دل باغ باغ ہوجاتا ہے اور دل کی گہرائیوں سے دُعا نکلتی ہے، پھر یہ کام منظم طریقے سے ہو تو مثبت نتائج مرتب کرتا ہے، جب ہم سیلانی کے پروگرام کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہےیونیورسٹی کی تعمیر شروع کردی گئی ہے، لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرانے کی اسکیم شروع کردی گئی ہے۔ یاد رہے کہ زراعت کے شعبے میں بھی قدم رکھا ہے، کراچی میں انہوں نے 13 ایکڑ پر ایک زرعی تحقیقی و ترقی کا مرکز قائم کیا ہے۔ فاضل پانی کو زراعت کے استعمال کے قابل بنانے کیلئے انتظام کئے جارہے ہیں، مختلف فصلوں کو اگانے کیلئے منفرد طریقے ایجاد کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی ترقی میںسیلانی اور اُن جیسے ہزاروں فلاحی ادارے بہت اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ پاکستان میں غدر مچ جاتا اگر یہ ادارے غریبوں اور انسانیت کی مدد کو نہ آتے، اس لئے کہ یہ کام حکومت کے بس کا بھی نہیں اور ہر کام میں حکومت کی دلچسپی بھی نہیں اور اگر ہے بھی تو اس کے اہلکار اس دلچسپی کو کرپشن کی نذر کر دیتے ہیں۔ ضروری ہے کہ سیلانی جیسے فلاحی اداروں کی مدد کی جائے اور اُن کا رضاکارانہ طور پر ہاتھ بٹانے کیلئے زیادہ سے زیادہ لوگ آگے آئیں اور دامے، درمے، سخنے مدد کریں اور انسانوں کے زخموں پر مرہم رکھیں اور دُنیا بھر میں جو لوگ پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کا پرچار کرتے ہیں ان کو ا ندازہ کرائیں کہ پاکستان کے ادارے انسانیت کی خدمت میں کسی سے کم نہیں۔

تازہ ترین