• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک عزیز دوست نے جو ایک اخبار سے دوسرے اخبار میں’’نقل مکانی‘‘ کرگئے ہیں، میرے ایک کالم پر اظہار خیال کیا ہے جس میں، میں نے کہا تھا کہ نواز شریف کو دیوار کے ساتھ نہ لگائیں، اس پر دوست نے لکھا کہ کالم نگار کو شاید وہ نواز شریف یاد آرہے ہیں جو ہر لرزش صبا کے پیچھے چل کر کبھی ایک آرمی چیف اور کبھی دوسرے آرمی چیف کو بیک جنبش قلم فارغ کردیا کرتے تھے۔ میرے کالم نگار دوست نے ایک طویل کشمکش کو ایک جملے میں بیان کرکے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ میرے یہ دوست جماعت اسلامی سے ذہنی روابط رکھتے ہیں، ان کے والد گرامی مرحوم اور برادرم محترم جماعت کے رہنمائوں میں شمار ہوتے ہیں۔ نواز شریف کی ایک ادا کو جمہوری حلقے ان کی شخصیت کا ایک بہت مثبت رخ سمجھتے ہیں یعنی یہ کہ وہ تمام ریاستی اداروں کو ان کے حدود و قیود میں کام کرتے دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر کبھی ایسا نہ ہو تو وہ بڑے سے بڑا خطرہ مول لے کر بطور وزیر اعظم پاکستان اپنا یہ فرض انجام دیتے رہے ہیں، مگر میرے بھائی کے گروہ کو یہ ادا جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے ہی ناپسند ہے ،چنانچہ وہ گیارہ سال ان کے ہم نوا رہے۔ میں نے جو اپنے کالم میں لکھا تھا کہ جس نواز شریف کو میں جانتا ہوں ، آج کا نواز شریف وہ نہیں ہے تو اس پس منظر میں کہ وہ جمہوریت کی بقا اور استحکام کے لئے اسٹیبلشمنٹ سے کئی ایک مواقع پر دل پر جبر کرکے کمپرو مائز کرتا نظر آتا ہے۔ پرویز رشید جیسے صاحب کردار انسان کا کیا قصور ہے، اس پر کون سا جرم ثابت ہوا ہے، مشاہد اللہ خان کو سزا کس بات پر دی گئی تھی، طارق فاطمی کی خدمات سے وزیر اعظم نے ملک و قوم کو کس کے لئے محروم کیا، اب وزیر اعظم کے بیٹوں کو کئی کئی گھنٹے کٹہرے میں کھڑا کرکے اور ایک مجرم کی طرح ان کی تصویر لیک کرکے انہیں کیامیسجدیا جارہا ہے؟ یہ سب تکلیف دہ امور کو قبول کرنا جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے ہی کے لئے تو ہے ، مگر میرے دوست کے ذہنی فریم ورک میں ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں، انہوں نے ایک بات یہ بھی فرمائی کہ نواز شریف عدلیہ پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں، جی ہاں ، افتخار چودھری اور دوسرے کئی ججوں کو ان کے خاندانوں سمیت میاں نواز شریف ہی نے ان کے گھروں میں قید کیا تھا۔ میرے فاضل دوست بھول گئے کہ سپریم کورٹ کے ان ججوں کی آزادی کے لئے تحریک نواز شریف ہی نے چلائی تھی اور عدلیہ کی آزادی کا سہرا انہی کے سر بندھا تھا۔ شریف فیملی کے ساتھ اس وقت جو ہورہا ہے ، میرے فاضل دوست کی نظر ادھر نہیں جاسکی اور انہیں یہ بھی یاد نہیں کہ پرویز مشرف پر آئین شکنی یعنی ملک سے غداری کا مقدمہ تھا مگر ان کی ایک تصویر بھی لیک نہیں ہوئی تھی ۔ وہ اس دوران جب چاہتےتھے، کمر کی درد کے بہانے اسپتال میں داخل ہوجاتے تھے اور پھر ضمانت پر رہا ہو کر ایک دن ملک سے فرار ہوگئے۔ اب درد کمر کے اس مریض کی تصویریں اخبارات میں شا ئع ہوتی ہیں جس میں وہ کسی پارٹی میں اپنی کمر لچکاتے نظر آتے ہیں۔
ایک بہت تکلیف دہ بات یہ ہے کہ میرے دوست کو جے آئی ٹی کے حوالے سے سامنے آنے والے سوالات سے کوئی غرض نہیں۔ عمر چیمہ جو پاناما کاغذات لیک کرنے والی صحافیوں کی جماعت کا ایک رکن تھا اور جو بلا مبالغہ ایک باضمیر اور بہادر صحافی ہے اور اپنی ان’’صفات‘‘ کے طفیل بہت تکلیف دہ مراحل سے گزر چکا ہے، میرے دوست اس کی بات سن لیں جس کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کا سارا انتظام و انصرام محکمہ دفاع کے ایک ذیلی ادارے کے پاس ہے۔ طارق شفیع کی بات سن لیں جن سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک کاغذ پر دستخط کرکے وعدہ معاف گواہ بن جائیں، نیشنل بینک کے صدر کو بارہ گھنٹے جرح کے دوران اور پانچ گھنٹے انتظار کی سولی پر چڑھانے کے بعد بقول ان کے یہی بات ان سے کی گئی جو طارق شفیع سے کی گئی تھی۔
پاکستان میں ایک صحافی ہے جس کا نام انصار عباسی ہے، انتہائی نیک ، پارسا اور اپنے قلم کو اپنے خدا کی امانت سمجھنے والا، اس کی رپورٹ پڑھ لیں جو اس نے جے آئی ٹی کے حوالے سے’’دی نیوز‘‘ میں شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کو تمام تر مبینہ دبائو اور دھمکیوں کے باوجود کرپشن یا منی لانڈرنگ کا کوئی سراغ نہیں ملا، چنانچہ اب اس کی ساری کوشش کوئی وعدہ معاف گواہ تلاش کرنے پر مرکوز ہے۔ میرے دوست کی ’’نگاہ تیز‘‘ اس’’دل وجود‘‘ کو چیرنے پر کیوں آمادہ نہیں، انہیں اگر صدمہ ہے تو صرف یہ کہ چاروں طرف سے وزیر اعظم نواز شریف پر الزامات کی بارش ہورہی ہے اور ان کی کردار کشی کرنے والے سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ اس طوفان بدتمیزی میں دو ایک آوازیں ان سب کی ہم نوا کیوں نہیں بن رہیں؟ میرے دوست آپ بن گئے، میں نہ بن سکا، آپ سے جو دیرینہ محبت کا رشتہ ہے امید ہے اس کے طفیل آپ میری یہ خطا معاف فرما دیں گے۔

تازہ ترین