• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند روز پیشتر ایک ٹی وی پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا، اس پروگرام میں ق لیگ کے سینئر نائب صدر اجمل وزیر اور ن لیگ کی ایم این اے مائزہ حمید گجر شریک تھیں۔ دونوں نے بڑے مزے کی گفتگو کی، میرے دونوں سے روابط ہیں۔ کچھ سال پہلے ایک تقریب میں اجمل وزیر مجھے گروجی کہہ کر مخاطب ہوئے تو مجھے حیرت ہوئی کہ انہیں یہ لفظ کہاں سے مل گیا کیونکہ گروجی تو مجھے جہانگیر بدر کہا کرتے تھے۔ میں نے اس نوجوان سیاستدان سے پوچھ ہی لیا کہ آپ نے مجھے گرو جی کیوں کہا ہے، کہیں آپ کی جہانگیر بدر (وہ اس وقت زندہ تھے) سے کوئی ملاقات تو نہیں ہوئی، اگر نہیں ہوئی تو آپ نے میرے لئے یہ لفظ کیسے استعمال کر لیا۔ وزیرستان سے تعلق رکھنے والا اجمل وزیر بڑی سادگی سے کہنے لگا کہ ’’....گرو جی! میں نے دیکھا ہے کہ بڑے بڑے سیاستدان آپ سے علیحدگی میں مشورہ کر رہے ہوتے ہیں اور تو اور ہماری پارٹی کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین بھی آپ کے ساتھ بیٹھتے ہیں، اکیلے آپ سے باتیں کرتے ہیں، بس میں نے اندازہ لگایا کہ یہ بندہ کوئی گرو ہے....‘‘ اس دن کے بعد سے میری اجمل وزیر سے دوستی ہو گئی۔ اسی طرح مائزہ حمید پہلی مرتبہ 2008میں پنجاب اسمبلی کی رکن بنیں، ہمارا تعارف ہوا تو مجھے اس نوجوان لڑکی میں ایک اچھے سیاستدان کی جھلک نظر آئی۔ مائزہ حمید نے پنجاب اسمبلی میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھائے، اس خوش لباس سیاستدان نے اپنی پارٹی کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ پارٹی اسے 2013ء میں قومی اسمبلی میں لے آئی۔ اس سفر میں مائزہ حمید کو ان کا باصلاحیت اور قابل ہونا بہت کام آیا۔ پنجاب اسمبلی میں ان کی کارکردگی بھی عمدہ تھی، جدید سیاست کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے مائزہ حمید نے میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔ قومی اسمبلی میں پہنچتے ہی اس نے میڈیا کے سامنے اپنی پارٹی کا دفاع شروع کر دیا، وہ پہلے ٹی وی پروگراموں میں دفاع کیا کرتی تھیں اور پچھلے کچھ عرصے سے سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن اور اب جے آئی ٹی بلڈنگ کے سامنے مائزہ حمید ن لیگ کی دفاعی ٹیم میں روح رواں کے طور پر نظر آتی ہیں۔ کچھ باتیں اور ہیں مگر پہلے ٹی وی پروگرام والی باتیں ہو جائیں۔ سیاسی پارٹیوں کے لوٹوں کی بات ہو رہی تھی کہ اجمل وزیر نے بڑی دلچسپ بات کی۔ کہنے لگے ’’....ہماری پارٹی کے وہ لوگ جن میں سے کچھ ن لیگ اور کچھ پی ٹی آئی میں چلے گئے جب چوہدری شجاعت کی ٹیبل سجتی ہے تو وہ اب بھی موجود ہوتے ہیں، ایک دن میرے پوچھنے پر بتایا کہ دراصل یہ لوگ ہم نے دوسری پارٹیوں کو رینٹ پر دیئے ہوئے ہیں۔ مائزہ کو پتہ ہے کہ دانیال عزیز، طلال، ماروی میمن اور امیر مقام ہمارے دیئے ہوئے تحفے ہیں، مائزہ حمید کی یہ بات درست نہیں ہے کہ جو لوٹے ان کے پاس جائیں وہ حلال اور جو ہمارے پاس آئیں وہ حرام....‘‘ اس پر مائزہ حمید بولیں ’’....پی ٹی آئی کی فرنٹ رو میں لوٹے ہیں، پی ٹی آئی میں امپورٹڈ لوٹے ہیں جبکہ ہمارے پاس جمہوری لوٹے ہیں....‘‘ مائزہ حمید کا اپنا شمار تو لوٹوں میں نہیں ہوتا مگر مجھے ان کی باتیں سن کر حیرت ضرور ہوئی کہ انہوں نے امپورٹڈ لوٹے اور جمہوری لوٹے کی نئی اصطلاح متعارف کروا ڈالی۔ مجھے ان کی باتوں سے کئی پرانی باتیں یاد آ گئیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب غلام حیدر وائیں کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تھی تو چند گھنٹوں میں پوری مسلم لیگ، لوٹا لیگ بن گئی تھی۔ لوٹوں کا یہ تماشا لاہور شہر میں لگا تھا۔ 2013ء کے الیکشن میں مائزہ حمید کی پارٹی نے 146ٹکٹ ایسے لوٹوں کو دیئے تھے جو ٹکٹ سے پہلے ق لیگ میں تھے۔ مسلم لیگ ن نے ہر جماعت کے سیاسی لوٹے کو ٹکٹ جاری کئے۔ مثلاً انہوں نے مسلم لیگ ق سے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے سکندر بوسن کو بھی ٹکٹ جاری کر دیا، پیپلز پارٹی کے بارہ سے زائد ممبران کو پنجاب اسمبلی کے ٹکٹ جاری کر دیئے، ق لیگ کے فارورڈ بلاک کے عطا مانیکا کو بھی ٹکٹ جاری کر دیا۔ میں آپ کو سرگودھا کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ڈاکٹر نادیہ عزیز سرگودھا سے پیپلز پارٹی کی ایم پی اے تھیں جب 2013ء کے الیکشن کا وقت آیا تو وہ میاں حامد حمید کے ہمراہ رائے ونڈ گئیں اور ن لیگ کا ٹکٹ لے آئیں۔ جب وہ واپس آئیں تو انہوں نے اپنے ڈرائنگ روم میں ن لیگ کا ٹکٹ اپنے حامیوں کو دکھایا پھر پریس کانفرنس کے لئے میڈیا کو بلایا گیا، جب پریس کانفرنس شروع ہونے والی تھی تو ڈاکٹر نادیہ عزیز کا ملازم آیا اور کہنے لگا کہ صرف دو منٹ رک جائیں، میں ذرا گھر کی چھت سے پیپلز پارٹی کا جھنڈا اتار لوں۔ اب خیر سے ڈاکٹر نادیہ عزیز ن لیگ کی ایم پی اے ہیں۔ واقعات تو بہت ہیں، کیا کیا لکھوں۔ حالیہ دنوں میں پیپلز پارٹی کے چند رہنما پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں تو اس پر سب سے زیادہ شور ن لیگ مچا رہی ہے حالانکہ یہ کام پیپلز پارٹی کو کرنا چاہئے تھا۔ دراصل ن لیگ اگلے الیکشن میں چلنے والی ہوائوں سے ڈر رہی ہے۔ پی ٹی آئی میں حالیہ شمولیتوں پر میرے پیارے دوست ناصر اقبال خان نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔ ’’.... پی ٹی آئی رولنگ پارٹی نہیں ہے، یہی پی ٹی آئی اور تبدیلی کے نعرے کی جیت ہے کہ اپوزیشن میں ہونے کےباوجود بڑے بڑے نامور سیاستدان پی ٹی آئی جوائن کر رہے ہیں، وہ کل تک کیا تھے، ان کا ماضی کیا تھا، عمران خان اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ عمران خان ان کے اُس روز سے ذمہ دار ہیں جس روز سے انہوں نے تحریک انصاف کو جوائن کیا۔ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے، پاکستان میں نظام کی تبدیلی اس کا بڑا ہدف ہے لہٰذا پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے لوگ عمران خان کے سیاسی فلسفے اور ترجیحات سے متفق ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں لوگ ہمیشہ رولنگ پارٹی کو جوائن کرتے ہیں مگر پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ لوگ ایک ایسی پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں جس کے پاس اقتدار نہیں ہے۔ جو پی ٹی آئی روایتی سیاستدانوں کے ذہن تبدیل کر سکتی ہے وہ یقیناً ملک میں تبدیلی لا سکتی ہے، ملکی نظام بدل سکتی ہے....‘‘
اطلاعات کے مطابق میاں نواز شریف کو جے آئی ٹی نے جمعرات کو طلب کیا ہے، اس سے پیشتر ان کے صاحبزادوں کو طلب کیا جاتا رہا ہے، اس کے بعد اسحاق ڈار کو بھی بلایا جائے گا۔ یہ ہفتہ بڑا اہم ہے، اس ہفتے میں جے آئی ٹی کا بائیکاٹ بھی ہو سکتا ہے، عدالت میں وکلاء کو بہت بڑی تعداد میں بھی بھیجا جا سکتا ہے اور کچھ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ پنجاب ہائوس اسلام آباد میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ایک ایسا فرد بھی موجود ہے جو چاندنی چوک پنڈی میں پانچ افراد کو مبینہ طور پر قتل کر کے انگلینڈ بھاگ گیا تھا، اب وہ ایک سیاسی جماعت کا برطانیہ کا عہدیدار ہے، اشتہاری ہے مگر پنڈی/اسلام آباد کی پولیس اسے سیلوٹ کرتی ہے۔
ایک بات مائزہ حمید نے بڑی اہم کی ہے کہ وہ بطور وزیر اعظم شہباز شریف کی بجائے مریم نواز کو پسند کریں گی۔ اس مرحلے پر میرؔ کا مصرع یاد آ جاتا ہے کہ
ع لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

تازہ ترین