• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک محترم کالم نگار میرے استاد بھی ہیں اور محسن بھی۔پہلے انہی صفحات میں ہمارے ساتھی تھے، ان دنوں ایک موقر معاصر میں بڑے ٹھکے ہوئے کالم لکھ رہے ہیں۔ انداز شائستہ، لہجہ دو ٹوک اور موقف استوار۔ یہ ان کے ایک نئے روپ کی رونمائی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ قیمہ کرنے کی مشین سے نکلے ہوئے باسی کالموں کی منڈی میں چند ہی کالموں سے حضرت نے ایک ٹکسالی ذائقہ متعارف کرا دیا ہے۔ کیوں نہ ہو، تین عشروں کی تپسیا ہے، بڑے جوکھم کا گیان ہے۔ گزشتہ روز البتہ ایک ایسا اتھل پتھل کالم لکھ ڈالا کہ نیاز مند کو قائل ہونے میں تامل ہوا۔ تفصیل عرض کرتا ہوں۔ سرخروئی کی دعا کیجئے۔ انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو…
مذکورہ کالم نگار صاحب نے دراصل نامعلوم حلقوں کی جانب سے پھیلائی کچھ سازشی کہانیاں بیان کی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ’’1985ء میں غیرجماعتی انتخابات کروانے کی جو غلطی کی گئی تھی اس نے قومی سیاسی زندگی کو تباہ کردیا… نئی اُتھّل پتھل میں 1985ء کے سارے غیرجماعتی سیاسی مفاداتی گروہوں سے نجات حاصل کی جائیگی… آئندہ الیکشن سے پہلے 18ویں ترمیم کا خاتمہ‘ الیکشن کمیشن کی نئے سرے سے قانون سازی اور شریف خاندان کا احتساب ہو گا… ق لیگ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا اتحاد بہت جلد بننے والا ہے… (18 ویں ترمیم میں) سلیبس کو صوبائی حکومتوں کے حوالے کرکے قومی سوچ کو تباہ کرنے کی سازش کی گئی… (اس اتھل پتھل کے دوران) جو بھی ن لیگ کا متبادل امیدوار ہوگا، وہ ریاستی اثرورسوخ میں ہوگا اور وہ وہی کرنے پر مجبور ہوگا جو اسے کرنے کو کہا جائے گا۔"
پہلا سوال یہ ہے کہ اس ہنڈ کلھیا میں یہ کھچڑی پکانے کا سیاسی اور آئینی جواز کیا ہے؟ قانونی صورت تو صرف یہ ہے کہ پاناما لیکس کی خبریں آنے کے بعد 2014ء میں دھرنا دینے والے کرداروں کو ایک نئی کہانی مل گئی۔ ایک مقبول ترین سپہ سالار میں توسیع پسندی کے عزائم مچل رہے تھے چنانچہ دھرنا (ٹو) کا ڈول ڈالا گیا۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ کسی جان آرزو کا اشارہ بھی شامل حال تھا یا نہیں۔ کیونکہ سیاسی قزاق سازش کے سمندروں میں ضمانت لے کر لنگر نہیں اٹھاتے۔ قسمت آزمائی کرنے نکلتے ہیں۔
اس بیچ ڈان لیکس کا غلغلہ ہوا۔ لاک ڈاؤن کی ہوائی دھمکیوں کے دوران عدالت عظمیٰ نے معاملے کی از خود سماعت کا فیصلہ کر لیا۔ چھ مہینے پر پھیلی رستاخیز کے بعد جے آئی ٹی ظہور میں آئی۔ الزام یہ ہے کہ موجودہ وزیر اعظم نے 22 برس پہلے غیر قانونی طور پر بیرون ملک رقوم منتقل کی تھیں۔ ابھی جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے میں ایک مہینہ باقی ہے۔ اس کے بعد عدالتی کارروائی کی نوعیت کسی کو معلوم نہیں۔ سوال یہ ہے کہ عرض مقدمہ میں تو پانامہ کی کسی آف شور کمپنی اور لندن کے فلیٹوں کا ذکر آیا تھا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کی غلطی کو 32 برس ٹھیک کرنے کا خیال کہاں سے پیدا ہوا؟ تب ایک ریفرنڈم بھی ہوا تھا۔ وہ ٹھیک تھا؟ آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے دستور کا حلیہ بھی بگاڑا گیا تھا۔ غیرجماعتی انتخابات میں حصہ لینے والوں نے غلطی کی تھی یا ان انتخابات کے مدارالمہام غلطی پر تھے؟ جماعت اسلامی نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں ایک سیاسی جماعت کے طور پر حصہ لیا تھا۔ ق لیگ اور تحریک انصاف میں کون ہے جو 1985ء کے غیر جماعتی منظر نامے کا حصہ نہیں تھا۔ یہ جو الیکشن سے پہلے شریف خاندان کا احتساب درکار ہے، اس میں آئین کی شق 10(الف) کا کیا بنے گا؟ کیا واقعی " مفاداتی گروہوں سے نجات" پانا مقصود ہے؟ ذرا ایک نظر اس برس کے وفاقی بجٹ پر ڈال لیجئے۔
یہ امر تو 2010 سے واضح ہے کہ کسی پس پردہ جادو گر کو 18ویں ترمیم قطعاً پسند نہیں۔ البتہ آٹھویں اور سترھویں آئینی ترامیم میں کی گئی شجر کاری قیمتی اثاثہ ہے۔ 1973 کا آئین پارلیمانی جمہوریت کا تقاضا کرتا تھا۔ جنرل ضیا اور جنرل مشرف صاحبان نے بندوق کے بل پر آئین کو صدارتی تشخص دیا۔ 18ویں آئینی ترمیم سے دشمنی کا باعث پارلیمانی جمہوریت کی بحالی اور صوبوں کو خود مختاری دینا ہے۔ اس سے آمریت کی جڑ کٹ گئی ہے۔ آمریت اختیارات کا ارتکاز مانگتی ہے۔ اس امکان کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے 18ویں ترمیم کا کانٹا نکالنا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ سبحان اللہ! جو عالی دماغ صوبوں کو تعلیمی نصاب مرتب کرنے کا اختیار دینے پر متذبذب ہیں، وہ وفاق کی اکائیوں میں باقی امور پر کیسے اعتماد کریں گے؟ یادش بخیر! یہ قومی نصاب وہی اسم اعظم نہیں جس نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے بیانیے کو جنم دیا؟ یہ اچھی کہی کہ ’’ن لیگ کا متبادل امیدوار ریاستی اثر و رسوخ میں ہو گا‘‘۔ اجی صاحب، وہ ذات گرامی تو دسمبر 2013 سے متبادل امیدوار بنے بیٹھے ہیں۔ اگر دباؤ ڈال کر ہی قومی پالیسی طے کرانا ہے تو پارلیمنٹ کا جھنجھٹ پالنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر منتخب نمائندے قومی پالیسی طے کرنے کے اہل نہیں سمجھے جاتے تو پارلیمنٹ کے بلدیاتی ادارہ بننے کا شکوہ کیسا؟ اختلاف قومی پالیسی پر نہیں، قومی حاکمیت کے سوال پر ہے؟ ’’غیر جماعتی انتخابات کی غلطی ‘‘کی حقیقت یہ ہے کہ زاہد حامد مسلم لیگ (ن) میں آئے تو تضحیک کا ہدف ٹھہرے، فردوس عاشق اعوان تحریک انصاف میں شامل ہوں تو تالیاں پیٹی جائیں۔ زیادہ وقت نہیں گزرا، جولائی 2011ء میں روز نامہ جنگ کے ادارتی صفحے ہی پر ایک سلیم الطبع صحافی نے پیش گوئی کی تھی کہ جہانگیر ترین اور اسحاق خاکوانی جیسے نیک نام رہنماؤں کو ایک جماعت میں جمع کیا جائے گا۔ 30 اکتوبر 2011 کا جلسہ تو بہت بعد میں ہوا۔ اصول پسندی کی معراج دیکھیے کہ ’عمران خان تنظیم سے بالاتر ہو کر انتخابی گھوڑوں ہی پر انحصار کریں گے اور الیکشن جیتیں گے‘۔ گویا یہ انتخابی گھوڑے غیر جماعتی سیاست کی کثافت سے بالکل پاک ہوں گے اور فی سبیل اللہ حکومت کا حصہ بنیں گے۔ طوطا مینا کی اس کہانی کے جواب میں دو دلائل ہی کافی ہیں۔ اول: پاکستان کے لوگ سیاسی عمل کے ذریعے سازش کا مقابلہ سیکھ چکے ہیں۔ دوم: عشروں سے کسی جواب دہی کے بغیر زور آوری دکھانے والوں کی ذہنی اہلیت کمزور ہو رہی ہے۔ لکھو کہ راہوار تھک گئے ہیں… فاضل کالم نگار کے تجزیے میں ایک ابہام البتہ پایا جاتا ہے۔ ٹھیک سے معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ اپوزیشن دراصل کسے کہہ رہے ہیں۔ یوں تو اقبال کا مصرع سامنے کی چیز ہے، اگر کج رو ہیں انجم، آسمان تیرا ہے یا میرا… لیکن محترم کالم نگارانگریزی ادب کے شناور ہیں۔ اتھل پتھل میں ہونے والی تباہ کاری اور آئین کے تسلسل کا فرق سمجھتے ہیں۔ سو انگریزی شاعر Donne John کی چار سطریں ان کے اختتامی پیراگراف کی تحسین میں حاضر ہیں۔
Moving of th' earth brings harms and fears,
Men reckon what it did, and meant;
But trepidation of the spheres,
Though greater far, is innocent.

 

تازہ ترین