• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسم بہار کی آمد کےاعلان کے ساتھ ہی رنگ برنگی پتنگیں زمین تک پھیلے آسمان پر خوش نما منظر تو پیش کرتی ہیں لیکن اس کی حقیقی سفیدی اور روشن نیلاہٹ کو ختم نہیں کرسکتیں مگر قدرے کم ضرور کردیتی ہیں، یہ بھی حقیقت ہےکہ زیادہ تر پتنگیں ایک خاص وقت تک اڑنے کے بعد ہوا کے زور کا شکار ہوجاتی ہیں یا کسی دوسری ڈور کے وار کا، یوں اپنے اصل وارث سے رابطہ کٹنے کے بعد ان کی بےیار و مددگار اور بے مکان ہوجانے کی کہانی شروع ہوجاتی ہے، پھر انہی میں سے بعض کٹی پتنگوں کو چوک چوراہوں میں لوٹا جاتا ہے تو کئی خود بےسہارا ہوکر کسی اور کی چھت، منڈیر یا صحن میں جا گرتی ہیں، بے اماں کٹی پتنگ کی کوئی منزل نہیں ہوتی اسی لئے گرنے سے پہلے اور کبھی گرنے کے بعد زیادہ تر کٹ پھٹ جاتی ہیں، بچ بھی جائیں تو کسی اور کے ہاتھوں فضا میں بلند ہوتی ہیں اور پھر کٹنے پھٹنے جیسے ازلی مقدر کا شکار ہوجاتی ہیں، کارزارِ سیاست میں بھی جیسے ہی عوامی انتخاب کا موسم قریب آنے لگتا ہے تو رنگ برنگی سیاسی پتنگیں جابجا اڑنےلگتی ہیں اور اپنے محور سے جدا ہونے پر تیار ان سیاسی پتنگوں کا کبھی مقصد ہوتا ہے دعوتِ نظارہ اور کبھی کسی ’’خاص‘‘ کی چھت، منڈیر یا صحن میں گرنے کی خواہش، کبھی کٹی پتنگ کا یہ ارمان پورا ہوجاتا ہے تو کبھی یہ بےٹھکانہ ہوائی ہی رہتی ہیں۔ کاغذی اور سیاسی کٹی پتنگوں کے درمیان بڑا اور اہم فرق یہ ہے کہ کاغذی پتنگ بالآخر کٹ پھٹ کر منطقی انجام کو پہنچ جاتی ہے جبکہ سیاسی پتنگ اپنی طنابیں کسی اور کے ہاتھ دےکر پہلے خوب اڑتی ہے پھر عوام اور سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں کٹنے اور لٹنے کے لامتناہی سلسلہ کا شکار ہوجاتی ہے، بقول مشاہد اللہ خان یہ جتنی مرتبہ کٹیں انہیں ہر مرتبہ لٹنے میں مزہ آتا ہے، سیانے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ بےراہ و منزل ہونے کے بعد مستقل ٹھکانہ ملنا کم ہی نصیب ہوتا ہے۔
سیاسی پنڈتوں کےخیال میں دنیا بھرمیں عوام کے مسائل کا حقیقی حل سیاسی وجمہوری نظام اور اس کی ڈیلیورنس سے ہے، اس نظام کی فعالیت اور مضبوطی بھی عوام کے اعتماد کی مرہون منت ہے، وطن عزیز کی 70سالہ زندگی کا آدھے سے زائد سفر ڈکٹیٹرشپ کے متواتر تجربات میں گزرا ہے، پہلے گورے اور پھر مقامی وردی کےسائے میں پروان چڑھنے والےخاندانوں اور ’’منتخب عوامیٔ‘‘ حکمرانوں نے عوام کا ہر انداز میں خوب استحصال کیا، گو نظام اب بھی وہی ہے تاہم میڈیا کی رسائی اور کسی حد تک عوام میں شعور و آگاہی نے نظام میں کچھ بہتری کا فرق ضرور ڈالا ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ بہتری اور جوابدہی کا عمل محض سیاسی اور جمہوری اداروں تک ہی محدود ہے، دلچسپ امر یہ ہےکہ شخصی و سیاسی آزادیوں کے بلند بانگ دعوے کرنے والے ابھی تک خود ’’معلوم اور نامعلوم طاقتوں‘‘ کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ اول تو کچھ کرنان ہیں چاہتے اور اگر کچھ کرنے کا ارادہ کرہی لیں تو ’’طاقت وروں ‘‘ کےحسن سلوک کا شکار ہوجاتے ہیں جس کا نظارہ گزشتہ اور موجودہ جمہوری ادوار میں دیکھا جاسکتا ہے۔ شاید یہی اسباب عوامی راج کے راستے میں بڑی رکاوٹ کا سبب بھی ہیں۔
نقاد کہتےہیں کہ معاملہ فہم اور زیرک سیاستدان ریاست اور نسلوں کی قسمت بدل دیتے ہیں لیکن اپنے وطن میں ریاست و عوام کے مقدر سنوارنے کا تو پتہ نہیں البتہ ان سیاسی وفاداروں کی اپنی قسمت ضرور بدلی ہے اور ان میں زیادہ تر ذاتی و اجتماعی مفاد کی خاطر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے پیش پیش ہیں جو اس عمل کو جمہوری حق سمجھتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ سیاسی جماعت اور اس سے وابستہ افراد ایک خاص نظریئے، سوچ اور منشور کے عہدوپیمان میں بندھے ہوتےہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ان کی سوچ یا نظریئےمیں تبدیلی آتی بھی ہے تو اس کے پیچھے ذاتی مفاد سے بڑھ کر قومی مفاد اور بہت بڑا اور عظیم مقصد ہوتا ہے،قائد اعظم محمد علی جناح اور اس سے پہلے علامہ اقبال کی کانگریس کو چھوڑ کر آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اس کا بڑا اور بھاری ثبوت ہے، موجودہ ادوار کو دیکھیں تو ذاتی اور قومی مفاد میں تفریق واضح تو ہے لیکن اس کو اقتدار کی ہوس و لالچ نے دھندلا دیا ہے۔ پاکستان میں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کی تاریخ پرانی اور توانا ہے، سرا ڈھونڈیں تو پتہ چلتا ہے کہ بھٹو صاحب خود ڈکٹیٹر ایوب کو ڈیڈی کہتے تھے تاہم انہوں نے اقتدار کے مزوں کے درمیان ہی خود کو عوامی جذبات میں ڈھالا اور نئی سیاسی راہ نکال کر عوامی جدوجہد کا آغاز کیا، ان کا برا وقت ابھی دور تھا کہ ان کےانتہائی قریب اور عوام کی خاطر کٹ مرنےکی قسمیں کھانے والے اپنا مستقبل بچانے ایک اور وردی کی کھال میں جاچھپے، بھٹو پھانسی چڑھ گئے، کٹی پتنگوں نے عوام کے مفاد اور نظام کی تبدیلی کے نام پر نئی سیاسی صف بندیاں کیں، نئے اتحاد اور جماعتیں بنیں عوام ’’قومی مفاد‘‘ دیکھتے رہ گئے، ڈکٹیٹر ضیاء کی دوران پرواز جدائی کو خوش قسمتی کا دروازہ سمجھنے والوں نے بھی نئی اڑان بھری اور پھر اپنے نظریات سےبالکل مختلف جماعتوں کو جوائن کرلیا، بھٹو کی بیٹی کا دور آیا تو ان کے اپنے لگائے صدرمملکت نے وفاداری بدل لی، ضیاء کی نوازشات سے لبریز شریف خاندان اقتدار میں آیا تو پنجاب کے بڑے خانوادے اور مذہبی جماعتیں دائیں بازو کی توانا سیاست کا ذریعہ بنیں پھر میاں صاحب سے اقتدار چھنا تو یہی کمٹڈ رفقاء کئی مسلم لیگیں بن کر کسی دوسرے کی چھت اور صحن میں اتر گئیں، یہی نہیں ایک اور ڈکٹیٹر کے نقارے نے محمود و ایاز کو ایک صف میں لاکھڑا کیا اور پیٹریاٹ کے نام سے کٹی پتنگوں کا ایک نیا اتحاد وجود میں آگیا لیکن کمال یہ ہے کہ ڈکٹیٹر کےدور میں مشرف با اقتدار ہونے والے قائد کےجانے سے پہلے ہی اپنی اڑان بھر کے کسی اور کے ہوگئے، سلسلہ رکا نہیں، میاں صاحب کےدوبارہ اقتدار میں آنے کے امکان پر ہی ڈکٹیٹر کی ڈور پر اڑنے والے کئی بڑے اور وزنی ’’گڈۓ‘‘ ان کی منڈیر پر آگرے اور من چاہی وزارتیں بھی حاصل کرلیں اور وفادار پھر سے اپنا سا منہ لےکر رہ گئے۔
ملک میں دو جماعتی نظام کے مقابلے کے لئے ایک نئی سیاسی جماعت کا جنم ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے بڑے برج اپنی وفاداری سمیت نومولود کی گود میں جا الٹے، عوام کو بتایا گیا کہ مقصد عظیم تر ہے اور وہ ہے ’’تبدیلی‘‘، ہاں چہرے اور کردار پرانے اورنئےنظام کے دعوے ببانگ دہل، گو نئی جماعت کےخالق اپنے ذاتی و سیاسی کردار کےحوالےسے بےداغ ہونے اور نظام بدلنے کے لئے نئے اور قابل چہروں کو متعارف کرانے کے دعویدار تھے، دعویٰ یہ بھی تھا کہ الیکٹیبلز کی سیاست نہ کریں گے نہ چلنے دیں گے، لیکن پھر عوام نے دیکھا، وہی بڑے سیاسی خاندان، پرانے کھلاڑی اور شاطرانہ چالوں کے ماہر کردار جوق در جوق پارٹی میں شامل ہی نہیں شناخت بنتے گئے، عوام کی بے پناہ امیدوں، روشن مستقبل کی آس اور شفاف نظام کے خوابوں کے رکھوالے کپتان بڑے بڑے ناموں کے جھولی میں گرتے خوشی سے پھولے نہیں سمائے، ابتدا میں جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور نہ جانے کون کون سے تجربہ کار سورما پارٹی کو مضبوط بنانے کیلئےشامل ہوئے تو شاید عوام نے کپتان صاحب کی ’’مجبوری‘‘ بادل نخواستہ قبول کرلی، لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، کے مصداق ’’برے نےتو گھر ہی دیکھ لیا‘‘، ہرکوئی اپنا ماضی دھونے اور اجلی سیاسی پوشاک پہننے چل پڑا اور اب حال یہ ہے کہ طنز کےنشتر برسانے والے یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتے کہ خان صاحب نے لانڈری نہیں لگائی بلکہ خود پی پی پی ،پی ٹی آئی بن گئےہیں اور نہ جانے کیا کچھ کہا جارہا ہے..... سیاسی نقاد تو یہ بھی کہتے ہیں کہ تبدیلی کےنام پر ملکی سیاست میں جو شہرت و عزت اور بام عروج خان صاحب کو ملا وہ بھٹو صاحب کو بھی نصیب نہیں ہوا تھا لیکن الیکٹبلیز کے نام، سزا یافتہ اور الزامات کی زد میں رہنے والی کٹی سیاسی پتنگوں کو اپنی منڈیر یا صحن میں گرتا دیکھ کر نازاں ہونے کا رویہ سیاسی مشکل اور مستقل غم کا سبب بھی بن سکتا ہے، خان صاحب کو اپنی ذاتی اور سیاسی ساکھ سمیت کروڑوں نوجوانوں کے ارمانوں کا احساس ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے، یقیناً یہ کٹی پتنگیں بھلے سے الیکٹبلز و منی الیکٹبلز اور مالدار اسامیاں ہیں اور آئندہ انتخابات کے کروڑوں کے اخراجات و لوازمات کے ذمہ دار بھی لیکن نہیں بھولنا چاہئے کہ2018 کے انتخابات پاکستان کی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ اور ملکی آبادی کی50 سے60 فی صد نوجوان آبادی کے فیصلہ کن ووٹ پر منحصر ہیں، محض اقتدار کی خاطر کسی بھی قسم کا کمپرومائز اور جسٹی فکیشن ہضم کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا، سیاست میں قائم ودائم اور مقبول وہی رہتا ہے جو اپنے نظرئیے، مصمم ارادوں اور نصب العین کے ساتھ اپنی اصل شناخت برقرار رکھے اور خان صاحب کے اتحادی امیرجماعت اسلامی سراج الحق تو کہہ ہی چکے ہیں کہ اصطبل بھرنے کے لئے محض گھوڑے جمع کرنا مقصد نہیں ہونا چاہئے بلکہ ان کی حالت اور نسل کا معلوم کرنا بھی کہیں زیادہ ضروری اور لازمی ہے۔!

تازہ ترین