• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان نے قطر اور دوسرے خلیجی ممالک کے درمیان کشیدگی دور کرانے کے لیے مصالحتی کوششوں کا آغاز کردیا ہے جس کی امت مسلمہ کے وسیع تر مفاد میں اس سے بجا طور پر توقع کی جا رہی تھی۔ اس سلسلے میں پیر کو وزیراعظم نواز شریف ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شامل تھے ،اچانک سعودی عرب پہنچے اور شاہ سلیمان کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی۔ انہوں نے قطر کے مسئلے پر سعودی حکمران کو پاکستان کی تشویش سے آگاہ کیا اور اپنے موقف کے حوالے سے انہیں اعتماد میں لیا، سعودی عرب اوراس کے اتحادی ملکوں مصر، بحرین، متحدہ عرب امارات اوریمن نے قطر پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کی پشت پناہی کے الزامات لگا کر اس سے سفارتی تعلقات توڑ دیئے ہیں اور بیرونی دنیا سے اس کے بحری، زمینی اور فضائی رابطے منقطع کرنے کے لئے بھی کئی اقدامات کئے ہیں جس سے قطر کے لئے شدید مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔ اسے خوراک اور ضروری خام مال کی درآمد میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ یہ جھگڑا سعودی عرب اور قطر تک محدود نہیں رہا بلکہ عرب و عجم تنازع کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ایران نے فوری طور پر قطر کے لئے ضروری اشیا ءسے بھرے ہوئے پانچ طیارے بھیجے ہیں اس دوران ترکی کے سرکاری میڈیا نے یہ خبر چلا کر کہ پاکستان کئی ہزار فوجی قطر بھیج رہا ہے پاکستان کی پوزیشن پر بھی سوال اٹھا دیا۔ پاکستان نے فوری طور پر اس کی تردید کردی اور معاملے کی نزاکت کے پیش نظر پاکستانی وفد کو سعودی عرب جانا پڑا، پاکستان مسلم ممالک میں اتحاد پر پختہ یقین رکھتا ہے اور مسلسل اس اتحاد کو فروغ دینے کی کوشش کرتا رہا ہے مگر سعودی عرب کی زیر قیادت اسلامی فوجی اتحاد میں اس کی شمولیت اور جنرل راحیل شریف کی اس اتحادی فوج کے سربراہ کے طور پر تقرری نے اس کی ساکھ کو کمزور کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ شام، عراق اور یمن کی خانہ جنگی اور وہاں داعش کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان محاذ آرائی کی کیفیت پیدا کردی ہے متحدہ اسلامی فوج کے قیام کا مقصد دہشت گردی کا مقابلہ کرنا بتایا گیا تھا جس کا مطلب داعش کو روکنا ہے مگر حالات و واقعات کے تناظر میں اس کا یہ مطلب لیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب دراصل ایران کو روکنا چاہتا ہے جس کی ہمدردیاں سعودی مخالف قوتوں کے ساتھ ہیں۔ سعودی عرب کو قطر پر ایرانی مفادات کے لئے کام کرنے کا شبہ ہے اس لئے اس نے خلیج کے اس چھوٹے سے ملک کو اپنی حد کے اندر رکھنے کے لیے تادیبی اقدامات اٹھائے ہیں۔ پاکستان کے سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ملکوں کے علاوہ ایران سے بھی جو ہمارا پڑوسی ملک ہے دوستانہ تعلقات ہیں، اس لیے اس سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ سعودی عرب اور ایران میں مفاہمت کا ماحول پیدا کرے۔ اس سلسلے میں اس نے سفارتی سطح پر سلسلہ جنبانی کی بھی ہے مگر قطر کے مسئلے نے معاملے کو مزید الجھا دیا ہے۔ اس سے عالم اسلام دو متحارب گروپوں میں تقسیم ہوتا دکھائی دیتا ہے جسے روکنے کے لیے پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے لیکن اسلامی فوجی اتحاد میں شمولیت سے اس کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھ رہے ہیں جن کی وجہ سے اس کی مصالحتی کوششوں کے بار آور ہونے کے امکانات ایک سوالیہ نشان ہیں۔ تمام متحارب ملکوں سے اچھے تعلقات کا تقاضا ہے کہ پاکستان ان کے باہمی تنازعات سے دور رہ کر ان میں افہام و تفہیم کرائے، عالم اسلام کے اتحاد کا علمبردار ہونے کے طورپر پاکستان کا اپنا ایک خاص امیج ہے یہ امیج برقرار رکھتے ہوئے اسے پاکستان اور امت مسلمہ کے مفاد میں مشکل فیصلے کرنے پڑیں تو ان سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام دشمن قوتیں اس وقت مسلمانوں میں تفرقہ کو ہوا دینے کے لیے پوری طرح سرگرم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ساری مسلم دنیا دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے یہ سب مخالف قوتوں کا کیا دھرا ہے انہیں شکست دینے کے لیے اسلامی ملکوں کو مسلکی اختلافات سے قطع نظر متحد اور منظم ہونے کی ضرورت ہے توقع کی جانی چاہئے کہ پاکستان انہیں قریب لانے کے مشن میں سرخرو ہو گا۔

تازہ ترین