• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دل چاہتاہے کسی پہاڑ کے دامن میں بسیرا کر لوں، سردیوں کی کوئی رات صحرا میں گزاروں، سمندروں کے سفر پہ نکلوں، نخلستان میں شب بسری کروں، تاروں بھرے آسمان کو گھنٹوں تکتا رہوں، کسی پُرشور دریا کی لہروں کو گنتا رہوں، گھنے جنگلوں میں بھٹک جاؤں، کسی ندی کے ساتھ ساتھ چلتا رہوں، ساحل کی ہواؤں کو قید کروں، سر سبز گھاس پر ننگے پاؤں ٹہلتا رہوں، کسی حسین وادی سے قدرت کا نظارہ کروں، مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو دیکھوں، چاندنی رات کسی ریگستان میں نکل جاؤں، بارش کی بوندوں کو مٹھی میں لینے کی کوشش کروں، کسی دور افتادہ جزیرے میں وقت گزاروں، کسی برف کی چٹان میں الاؤ روشن کردوں، پھولوں کے شہر میں جھونپڑی بناؤں، کسی ویرانے میں رت جگا کروں ..... وقت ہو، بے فکری ہو، محبت ہو۔
بظاہر ناتمام خواہشیں..... مگر اِن میں سے کچھ کی تکمیل ایسی مشکل بھی نہیں، دولت مند ہونا بھی شرط نہیں، زندگی کے جنجال کم کرنا البتہ ضروری ہے اور یہ فیصلہ کرنا کہ زندگی کی مسرت کس کام میں پوشیدہ ہے۔ روزانہ کے بکھیڑوں میں ہم الجھے رہتے ہیں، نوکری، کاروبار، جائیداد، قرابت داریاں، حسد، طمع اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ۔ ایسی دوڑ جس میں جیتنے والا خسارہ میں رہتا ہے۔ اس خسارے کو البتہ کم کیا جا سکتا ہے.... اُن خواہشات کی تکمیل سے جن کے لئے دولت کی فراوانی درکار ہے نہ دوسرے انسانوں کو پاؤں تلے روندنے کی ضرورت۔ لیکن ہم میں سے اکثر یہ کر نہیں پاتے، سوچتے رہتے ہیں، ٹالتے رہتے ہیں، کسی ’’مناسب‘‘ وقت کے انتظار میں۔ ...جب فراغت ہو گی، جب زیادہ پیسے آ جائیں گے، جب چھٹیاں ہوں گی، جب مسائل کا گھن چکر کم ہوگا، جب بچے بڑے ہو جائیں گے، جب بچوں کے امتحان ہو جائیں گے، جب گرمی کم ہو جائے گی، جب سردی کم ہو جائے گی. ...بالآخر زندگی ہی کم ہو جاتی ہے! سوال پھر وہیں کہ اِس مختصر زندگی میں انسان مسرت کیسے کشید کر سکتا ہے؟ ایک جواب تو یہی ہے کہ قدرت کی رنگینیاں سمیٹ کر اور دوسرا جواب بچوں سے محبت کرکے....کسی نوزائیدہ کو گود میں لے کر اُس کی حیرت زدہ آنکھوں کو تکتے رہنا، کلکاریاں مارتے بچے کو گود میں لینا، اسے انگلی سے پکڑ کر چلنا سکھانا، وہ کوئی نیا لفظ بولے تو پیار سے چومنا.... اپنی مسرت ہم بچوں میں ہی تو ڈھونڈتے ہیں، قدرت کا جو انمول شاہکار ہیں۔ مگر یہ سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی ہم زندگی سے وہ مسرت حاصل نہیں کر پاتے جو ہم چاہتے ہیں اور اُس کی وجہ ہماری زندگیوں میں دخیل وہ منفی اور وقت کا ضیاع کرنے والے رُجحانات ہیں جنہوں نے ہمیں اپنے چُنگل میں لے رکھا ہے۔
ایک نوجوان کہیں لیکچر دے رہا تھا، لیکچر کے دوران اُس نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ جب وہ ہوائی جہاز کا سفر کر رہا تھا تو اچانک جہاز کے انجن فیل ہو گئے، یکدم پورے جہاز میں خاموشی چھا گئی، مسافروں کے چہرے خوف سے سفید ہو گئے، پائلٹ نے اعلان کر دیا کہ خواتین و حضرات موت کو گلے لگانے کے لئے تیار ہو جائیں۔ نوجوان نے کہا کہ یہ بات سنتے ہی چند لمحوں میں اُس کی آنکھوں کے سامنے زندگی کی پوری فلم گھوم گئی، وہ زندگی میں کیا کرنا چاہتا تھا، کون سی خواہشات کی تکمیل ابھی باقی تھی، کن کاموں میں اُس نے زندگی ضائع کی تھی، کون سے کام اسے کرنے چاہئیں تھے، موت کا خوف کیسا تھا....؟مگر پھر قسمت نے یاوری کی اور جہاز کو بحفاظت اتار لیا گیا مگر موت کے اُن لمحات نے اُس کی زندگی بدل دی۔ نوجوان نے لیکچر میں بتایا کہ زندگی میں بہت سے تجربات ہم کرنا چاہتے ہیں مگر مختلف وجوہات کی بنا پر نہیں کر پاتے، بہت سے لوگو ں سے ملنا چاہتے ہیں مگر وقت نہیں ملتا، بہت سی خواہشات ٹوکری میں لئے پھرتے ہیں مگر انہیں محض اس وجہ سے پورا نہیں کر پاتے کہ ارادہ بنا کر توڑ ڈالتے ہیں۔ اُس نے کہا کہ اب میں کسی بات کا انتظار نہیں کرتا اور جس کام میں مسرت ملتی ہے اسے اب زندگی میں ملتوی نہیں کرتا۔ دوسری بات نوجوان نے بتائی کہ جہاز میں اسے احساس ہوا کہ اُس نے اپنی زندگی کا وقت اُن کاموں اور اُن لوگوں کی وجہ سے بھی ضائع کیا جن کی کوئی اہمیت نہیں تھی، یہ حماقت تھی، زندگی اس قدر ارزاں نہیں کہ فضول لوگوں کی باتو ں میں برباد کی جائے یاپھر اُن لوگو ں کو دلائل میں شکست دے کر گزاری جائے جن سے آپ محبت کرتے ہیں۔ اور تیسری بات، موت ایک حقیقت ہے، انسان موت سے خوفزدہ نہیں ہوتا بلکہ درحقیقت اسے زندگی سے محبت ہوتی ہے اور زندگی سے محبت اِس لیے ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنے بچوں کو اپنی نظرو ں کے سامنے پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا ہے، انہیں بچپن سے جوانی میں داخل ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے، انہیں سفاک دنیا سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ سو، خلاصہ یہ کہ پھولوں کا شہر دیکھنے کی خواہش ہو یا صحرا کے بیچوں بیچ خیمے میں شمع جلا کر محبوب کے ساتھ ڈنر کرنا مقصود ہو، وسائل اگر ہوں تو ’’مناسب‘‘ وقت کا انتظار نہ کریں، زندگی کی جو مسرت دستیاب ہو اسے حاصل کریں، خواہشات کی فہرست بنا کر جیب میں ڈالنے کی بجائے اسے جیب سے نکالیں اور اُسے مکمل کرکے نشان لگاتے جائیں۔ زندگی سے منفی باتیں نکالنے کی کوشش کریں، جن لوگوں کی آپ کی زندگی میں اہمیت نہیں اور وہ درد سر کا باعث ہیں اُن سے دور رہیں، جن لوگوں سے آپ محبت کرتے ہیں انہیں وقت دیں، اُن سے وہ بحث نہ کریں جس کے نتیجے میں آپ انہیں کھو دیں یا وہ آپ سے دور ہو جائیں، بحث کا جیتنا ضروری نہیں، محبت بھرے انسان کا آپ کی زندگی میں ہونا ضروری ہے۔ اور دنیا میں کوئی بھی بات اس سے زیادہ اہم نہیں کہ آپ کتنے اچھے والد اور کتنی اچھی ماں ہیں، بچوں کی خوشی سے بڑھ کر دنیا میں کوئی خوشی نہیں ہو سکتی، اپنے بچوں سے صرف محبت کا دعویٰ نہ کریں بلکہ اس دعوے کو ثابت بھی کر کے دکھائیں اور یہ کوئی آسان کام نہیں۔
کالم کی دُم :یہ کالم غربا کے لئے نہیں، یہ کالم اُن امرا کے لئے بھی نہیں جنہیں اللہ نے دولت تو دی ہے مگر خرچ کرنے کی ہمت نہیں دی، ایسے لوگ دنیا میں کیشئر کے عہدے پر فائز رہ کر ہی مسرت کشید کرتے رہتے ہیں۔ کالم کا مقصد یہ نہیں کہ بندہ بے لگام خواہشات کی تکمیل میں جُت جائے اور اِس کا مقصد اُن لوگوں کی دل آزاری بھی نہیں جو اولاد کی نعمت سے محروم ہیں۔ مزید براں یہ کالم Utilitarianismکے فلسفے سے متاثر ہو کر ہر گز نہیں لکھا گیا۔ اس کالم کو لکھنے سے مجھے کوئی خاص مسرت حاصل نہیں ہوئی۔ ’’مسرت ‘ ‘ کسی خاتو ن کا نام نہیں، قارئین نوٹ فرمالیں۔

تازہ ترین