• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں ایک سروے سامنے آیا جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے شہروں میں غریب اور امیر کے فرق میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اسی سروے کے مطابق دیہی علاقوں میں غریب اور امیر کا فرق شہروں سے کم ہے لیکن ملک کی زیادہ تر آبادی دیہات میں رہتی ہے۔ یہ سروے معاشی ماہرین کی توقع کے عین مطابق ہے کیونکہ دیہات میں رہنے والی آبادی کا انحصار زراعت پر ہے اور زرعی شعبہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر شدید بحران کا شکار ہے۔ نئی دولت شہروں میں پیدا ہو رہی ہے اس لئے وہیں دولت کا ارتکاز ہے۔ دیہی آبادی شہروں کا رخ کر رہی ہے اس لئے شہروں میں مزدور طبقے کی سپلائی بے انتہا ہے اور اس کی اجرتیں بہت نچلی سطح پر ہیں۔ پاکستان تاریخ کے اس دور سے گزر رہا ہے جہاں اس طرح کی طبقاتی تقسیم ناگزیر ہے۔ یعنی دیہی آبادی کی غربت میں اضافہ اور شہروں میں امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فرق۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں دیہی آبادیاں غریب ہیں۔ہندوستان ہو یا امریکہ، یورپ ہو یا افریقہ دیہی آبادیوں میں اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ابھی چند روز پہلے ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش میں کسانوں کے ایک مشتعل ہجوم پر گولی چلائی گئی جس سے چھ کسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ باوجود سبسڈی فراہم کرنے اور قرضے فراہم کرنے کے ہندوستان میں سینکڑوں کسان ہر سال خود کشی کر لیتے ہیں۔ امریکہ میں دیہی اور قصباتی غربت میں اضافہ ہوا ہے: صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسی آبادی کو روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کر کے الیکشن میں فتحیاب ہوئے ہیں۔ اگرچہ امریکہ میں دیہی غربت کی کافی پیچیدہ وجوہات ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ صنعتوں کا دوسرے ملکوں میں منتقل ہوجانا اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پاکستان، ہندوستان اور دوسرے ترقی پذیر ممالک میں زرعی شعبہ رو بہ زوال ہے اور صنعتی شعبہ تیزی سے ترقی نہیں کر رہا۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں خود کفیل زرعی شعبہ تباہ ہو چکا ہے اور دیہی آبادی کی بہت بڑی تعداد بیروزگار ہو چکی ہے۔ پاکستان کے اکثردیہی علاقوں میں زمین تقسیم در تقسیم ہو کر اتنے چھوٹے قطعات میں بٹ چکی ہے کہ کوئی بھی خاندان اس کی آمدنی پر گزارہ نہیں کر سکتا۔ اگرچہ یہ امر اپنی جگہ پر ہے کہ دنیا میں بڑے قطعات کے زرعی علاقوں میں بھی یہ شعبہ حکومتی سبسڈی کے بغیر اپنے آپ کو زندہ نہیں رکھ سکتا۔ مثلاً امریکہ میں چھوٹے سے چھوٹا زرعی قطعہ بھی ہزاروں ایکڑوں پر محیط ہوتا ہے لیکن اگر حکومت ان کو سبسڈی نہ دے تو یہ شعبہ لا محدود بحرانوں کا شکار ہو جائے گا۔ یہی صورت حال یورپ کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی ہے جہاں حکومتیں زرعی شعبے کو زندہ رکھنے کے لئے بہت سی سبسڈیاں فراہم کرتی ہیں۔ لیکن ایک تو یہ ممالک امیر ہیں اور سبسڈی دے سکتے ہیں اور دوسرے ان ممالک میں آبادی کے بہت تھوڑے حصے کا انحصار زرعی شعبے پر ہے۔ پاکستان کی حکومت کی آمدنی بہت کم ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی ضروری سبسڈی نہیں دے سکتی۔
پاکستان تاریخ کے جس مرحلے سے گزر رہا ہے صنعتی ممالک اس منزل سے کچھ صدیاں پہلے گزر چکے ہیں۔ جب برطانیہ میں صنعتی انقلاب برپا ہو رہا تھا تو اسی طرح سے دیہی آبادیوں کی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو چکی تھی جیسا کہ ہمیں اب پاکستان اور اس جیسے ترقی پذیر ممالک میں نظر آرہا ہے۔ برطانیہ میں بھی تجارتی اور صنعتی انقلاب سے پیشتر زرعی آبادیاں خود کفیل تھیں لیکن وہ اپنے آپ کو قائم نہ رکھ سکیں۔ کارل مارکس نے اپنی مشہور تصنیف سرمایہ کی جلد اول میں برطانوی کسانوں کی بگڑتی ہوئی حالت زار کا نوحہ لکھا ہے۔ لیکن جب کافی طویل عرصے کی تبدیلیوں کے بعد برطانیہ مکمل طور پر صنعتی ملک بن گیا تو ایک طرف تو اس کی دیہی آبادیاں کم ہو گئیں اور دوسرے صنعتی شعبے میں پیدا ہونے والی دولت سے زرعی شعبے کی مدد کی گئی۔ لیکن آخر کار نجات مکمل طور پر صنعتی معیشت میں ڈھل جانے میں ہے۔ امریکہ بھی اس منزل سے گزرا اور خوشحال ملک بن گیا لیکن پچھلے تیس چالیس سالوں میں برپا ہونے والے گلوبلائزیشن کے انقلاب کے نتیجے میں اس کی کچھ صنعتیں (مثلاً کوئلہ) ناکارہ ہو گئیں اور بہت سی صنعتیں ان ممالک میں منتقل ہو گئیں جہاں پیداواری اخراجات نسبتاً کمتر تھے۔ بہت سے علاقوں میں اس صنعتی تنزل کی وجہ سے غربت کی شرح بڑھ گئی ہے۔ غرضیکہ ہر حال میں نجات صنعتی پھیلاؤ میں ہے اور معاشرے زرعی معیشت کی بنیاد پر اپنے آپ کو قائم نہیں رکھ سکتے۔
پاکستان میں خود کفیل دیہی آبادیوں کا اسی کی دہائی میں خاتمہ شروع ہوگیا تھا جب مشینی زراعت نے صدیوں سے قائم نظام کو بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا۔ یہی وہ دور ہے جب ہندوستان، چین اور دنیا کے دوسرے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں تجارتی اور صنعتی انقلابات برپا شروع ہو گئے۔ جوں جوں دیہات میں مشینی کاشت اور زمین کی تقسیم کی وجہ سے بیروزگاری بڑھی تو دیہی آبادیوں نے شہروں کا رخ کیا۔ نئے کاروباروں اور صنعتوں سے شہروں کی کایا کلپ شروع ہو گئی۔ بہت سی دیہی آبادی شہروں میں نچلی سطح کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئی۔ جن ممالک میں صنعتی انقلاب تیزی کے ساتھ آگے بڑھا وہاں دیہی آبادی صنعتی شعبوں میں روزگار ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئی۔ چین جیسے ممالک اس کی مثال ہیں جو آمدنی میں دنیا کے صف اول کے ملک بن گئے۔ لیکن پاکستان جیسے بہت سے ممالک ہیں جن میں صنعتی ترقی کی رفتار بہت سست رہی ہے لہذا وہ دیہی آبادیوں کو نئے روزگار فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی تاریخ بتاتی ہے کہ زرعی شعبے کو بحال نہیں کیا جا سکتا: صرف صنعتی پھیلاؤ سے آبادی کو خوشحال بنایا جا سکتا ہے۔اس وقت پاکستان میں زرعی شعبہ قومی آمدنی کا بیس فیصد کے قریب ہے : یہ ماضی میں اسی فیصد کے قریب ہوا کرتا تھا۔ پاکستان کی قومی دولت میں زرعی شعبے کا حصہ بیس فیصد جبکہ چالیس فیصد آبادی اس شعبے پر انحصار کرتی ہے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ زراعت پر انحصار کرنے والی دیہی آبادیوں میں غربت کا بڑھنا ناگزیر ہے۔ تاریخ میں ایسا ہی ہوا ہے اور پاکستان کے علاوہ بھی دنیا میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ اس سے ہم یہی نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ پاکستان میں زرعی شعبہ کبھی بھی پرانی طرز پر بحال نہیں ہو سکتا۔ بلکہ آنے والے سالوں میں زرعی شعبے کا قومی آمدنی میں حصہ اور بھی کم ہو جائے گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں صنعتی ترقی کے عمل کو اتنا تیز کیا جا سکتا ہے کہ وہ وافر دیہی آبادی کو روزگار فراہم کر سکے؟

تازہ ترین