• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اس میں پیدائش سے موت تک، شادی بیاہ سے غمی خوشی تک، بچپن سے لڑکپن تک، نوجوانی سے بڑھاپے تک، نجی معاملات سے سرکاری کاموں تک، عائلی وخانگی زندگی سے لین دین کے معاملات تک، کھیتی باڑی سے تجارت وصنعت تک، بچوں کی تربیت سے بزرگوں کے حقوق تک، ملکی سیاست سے عالمی تعلقات تک، اپنوں کی دوستی کے احکام سے یہود وہنود، مشرکین، نصاریٰ اور دیگر قوموں اور مذاہب کے ساتھ تعلقات قائم کرنے تک سب کچھ موجود ہے۔ دینِ اسلام واحد مذہب ہے جس میں اتنی تفصیل اور تنوع کے ساتھ احکام بیان کئے گئے ہیں۔ ہمارے دین میں زندگی کے تمام گوشوں سے متعلق کافی شافی رہنمائی موجود ہے۔ رمضان المبارک کیسے گزارا جائے ؟اس بارے میں بھی پوری پوری راہنمائی موجودہے۔ قارئین! ہمارے مہربانوں میں سے ایک حاجی صاحب بھی ہیں۔ یہ ایک جدید گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل پیدا ہوئے۔ بہت چھوٹی عمر تھی اپنے والدین کے ساتھ پاکستان آگئے۔ تعلیم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور جلد ہی اعلیٰ نمبروں سے گریجویشن کرلی۔ بعد میں سول سروس کا امتحان دیا اور وہاں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو جی بھر کے دل کے ارمان نکالے۔ وہ خود کہتے ہیں: ’’میں نے اپنی جوانی عیش وعشرت میں گزاری۔ ہر وہ کام کیا جس سے میرا نفس خوش ہو، لیکن زندگی ہمیشہ سکون سے عاری ہی رہی۔ میں اسی سکون کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک وقت ایسا آیا کہ زندگی گزارنا مشکل ہوگیا۔ لہٰذا میں نے اپنا مشغلہ کتابوں کو بنالیا۔ ایک دن اُردو بازار گیا، وہاں سے بہت سے ناول، کہانیاں اور آپ بیتیاں خریدیں۔ بہت سی کتابیں ایسی بھی نظر آئیں جو اسلامی موضوعات پر تھیں، لیکن افسوس! مسلمان ہوکر بھی مجھے ہمیشہ اسلام اور مسلمان سے چڑ رہی۔ نجانے کیوں اس دن مجھے خیال آیا کہ اسلام سے متعلق کچھ کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ میں نے چند کتابیں اسلامی موضوعات سے متعلق بھی خریدیں۔ ان میں سے ایک کتاب ’’نومسلموں‘‘ کے قبولِ اسلام کی رودادوں پر مشتمل تھی۔ میں جب گھر آیا، تمام کتابوں سے پہلے میں نے یہ کتاب پڑھی۔ اس میں اسلام قبول کرنے والوں کے حالاتِ زندگی تھے۔ میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ اس وقت میری جو کیفیت تھی، وہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ میں نے اسی وقت توبہ کرلی اور اللہ کے حضور گڑگڑاکر اپنے گناہوں کی معافی مانگی…‘‘ اس کے بعد حاجی صاحب کے بقول انہوں نے دین کا علم حاصل کرنا شروع کردیا۔ وہ دین کے ایک ایک حکم کو سیکھتے ہیں اور اس پر مکمل عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وہ میرے پاس آئے۔ علیک سلیک کے بعد کہنے لگے: ’’مولانا! آج کل کیا ہورہا ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’ان دنوں میں سیاست کے حوالے سے ایک تحقیقی کتاب پر کام کررہا ہوں۔ یہ سن کر حاجی صاحب کچھ سوچتے رہے۔ پھر تھوڑی دیر بعد گویا ہوئے: ’’غازی جی! کب تک عالمی سیاست کی گُتھیاں سلجھاتے رہیں گے؟ یہ الجھنیں سلجھنے والی کب ہیں؟ اس لئے کہ’’ اہلِ دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہیں۔‘‘ لہٰذا ہم ایسوں پر بھی رحم کھائیں۔ لوگوں کا یہ جہان بنے نہ بنے، ان کے اگلے جہان کی بھی کچھ فکر کریں۔ سال بھر کی موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے عوام کی مذہبی ضروریات کا بھی خیال کریں۔‘‘ میری خاموشی دیکھ کر حاجی صاحب اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’احترام ِرمضان کے تقاضوں پر بھی لکھیں۔‘‘حاجی صاحب کے پُرزور اصرار پر اس موضوع پر میں نے مطالعہ شروع کیا تو حیران رہ گیا کہ خیرالقرون اور اس کے بعد کے زمانے میں کس قدر رمضان کا اہتمام کیا جاتا تھا؟ کس طرح لمحے لمحے کو قیمتی بنایا جاتا تھا؟ اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزے دار کو افطار کرایا۔ یہ اس کے لئے گناہوں کی مغفرت، آتشِ دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہے اور اس روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ روزے دار کے ثواب میں کمی کی جائے۔‘‘ عرض کیا گیا: ’’یارسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا۔‘‘ اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی یا صرف پانی ہی کے گھونٹ کے ذریعے کسی روزے دار کو افطار کرادے جو کوئی کسی روزے دار کو پورا کھانا کھلادے، اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض یعنی حوضِ کوثر سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اسے کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس ماہ کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آتشِ دوزخ سے آزادی کا ہے۔‘‘ بعد ازاں آپ نے فرمایا: ’’جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام، ملازم اور خادم کے کاموںمیں تخفیف اور کمی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے گا اور اسے دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا۔‘‘ رمضان نیکیوں کا سیزن ہے۔ رمضان وہ مقدس مہینہ ہے جس کو سال کے دوسرے مہینوں پر فضیلت اور فوقیت حاصل ہے۔ اس میں شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔ ہر نیکی کا ثواب 70 گنا ہوجاتا ہے۔ دُعا کی قبولیت بڑھ جاتی ہے۔ اس ماہ میں اللہ اپنے بندوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔ بہت سے ایسے جہنمیوں کو آزاد کرتے ہیں جن پر دوزخ واجب ہوچکی ہوتی ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل کیا گیا ہے۔ جس میں ہدایت کی اور نیک وبد میں تمیز کی واضح نشانیاں ہیں۔ یہ رحمت، مغفرت، جہنم سے نجات اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کا خاص مہینہ ہے۔ اس میں اللہ کی طرف سے فرشتے آواز لگاتے ہیں: ’’اے بدی اور برائی کرنے والے تو رُک جا! اے نیکی کے طالب تو اس میں مزید طلب پیدا کر! اگر ہم اس ماہ مقدس میں چند کام کر لیں تو دنیا، آخرت کی کامیابیاں ہمارے قدم چومیں گی۔ رمضان میں وہ عمل کئے جائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ تلاوت، کثرتِ ذکر، سخاوت اور کثرتِ دُعا۔ غریبوں، محتاجوں اور یتیموں کا خاص خیال رکھیں۔ ان کی غم خواری کریں۔ ان کی مدد کریں اور ان کو اپنی خوشی میں شامل کریں۔ زکوٰۃ ادا کرنے کے علاوہ صدقات، عطیات اور خیرات کا خوب خوب اہتمام کریں اور مستحقین تک پہنچائیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ رمضان کا احترام ملحوظ رکھیں۔ احترامِ رمضان سے متعلق ایک واقعہ سنیں جو عربی کی مشہور کتاب ’’نزہۃ المجالس‘‘ میں درج ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک مسلمانوں کی بستی تھی۔ اس میں ایک مجوسی رہا کرتا تھا۔ رمضان المبارک کے دن تھے، مجوسی کا بیٹا دن میں سب کے سامنے کھانا کھارہا تھا۔ مجوسی نے اپنے بیٹے کو سرعام کھانا کھاتے ہوئے دیکھا تو بہت ڈانٹا کہ تجھے معلوم نہیں ہے کہ یہ مسلمانوں کے مقدس دن چل رہے ہیں اور تو سب کے سامنے کھانا کھارہا ہے۔ چنانچہ کچھ دن کے بعد اس مجوسی کا انتقال ہوگیا۔ کسی اللہ والے نے اس کو خواب میں دیکھا کہ وہ جنت میں ہے۔ اُس بزرگ نے اُس سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہوا؟ اُس نے کہا کہ مسلمانوں کے رمضان کے احترام کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے مرتے وقت کلمہ نصیب کردیا تھا اور میں اپنی سابقہ زندگی سے توبہ تائب ہوکر مرا۔ تو قارئین! دیکھیں احترامِ رمضان کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک مجوسی کو کلمے کی توفیق نصیب فرمائی جو دخولِ جنت کا سبب بن گئی۔ آپ کو بھی رمضان کا بہت زیادہ احترام کرنا ہے۔ احترام انسان کو کہاں سے کہاں تک پہنچادیتا ہے اور بے ادبی انسان کو لے ڈوبتی ہے۔

تازہ ترین