• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما پیپرز کے حوالے سے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) اگرچہ شروع سے بعض حلقوں کے اٹھائے گئے سوالات اور اعتراضات کی زد میں ہے مگر اب اس نے خود بھی وزیر اعظم اور وزیر اعظم ہائوس سمیت تمام اداروں پر جو سنگین الزامات عائد کئے ہیں ان سے صورتحال پیچیدہ تر ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔ جے آئی ٹی کے تفتیشی دائرے میں از خود طور پر نظر آتی وسعت ایسے مقام پر محسوس ہوتی ہے جس میں کسی بڑی یا حوصلہ افزا پیش رفت کی نشاندہی تاحال نہیں ہوئی۔ پیر کے روز سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں تفصیلاً بتایا گیا کہ جے آئی ٹی کی راہ میں کیا رکاوٹیں ہیں، کون جے آئی ٹی کو کام کرنے نہیں دے رہا اورکون ریکارڈ میں تحریف کر رہا ہے۔ مذکورہ رپورٹ ایک اعتبار سے وزیر اعظم ہائوس، انٹیلی جینس بیورو (آئی بی) سکیورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان ( ایس ای سی پی)، قومی احتساب بیورو (نیب)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، وزارت قانون اور دیگر کے خلاف چارج شیٹ کہی جاسکتی ہے۔ الزام عائد کیا گیا ہے کہ تحقیقاتی عمل کو نقصان پہنچانے کے لئے سرکاری مشینری استعمال کی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ شریف خاندان کے اتفاق گروپ کے سی ای او نے تحقیقات کے اہم گواہ طارق شفیع کو وزیر اعظم ہائوس میں بلایا جہاں گواہ کو ہدایت کی گئی کہ وہ جے آئی ٹی میں وہی بیان دے جو وزیر اعظم ہائوس ان کو بتائے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جے آئی ٹی کے پاس پوری کارروائی کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ اس لئے طارق شفیع کے اس بیان کے علاوہ گواہ کے اس الزام کا جائزہ لینے میں بھی اس سے مدد مل سکتی ہے جس میں طارق شفیع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی نے ان پر دبائو ڈالا کہ اپنا بیان واپس لو ورنہ جیل جائو گے۔جے آئی ٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ مختلف اداروں اورشعبوں سے جو بھی معلومات و دستاویزات مانگی گئیں انہیں خفیہ رکھنے کی ہدایات کے برعکس عمل کیا گیا،میاں نواز شریف کی جے آئی ٹی میں پیشی کے خط کو واضح طور پر سیکرٹ قرار دیا گیا تھا مگر اس سمن کو بھی لیک کر دیا گیا۔یہ سب باتیں ایسے وقت بڑی عجیب معلوم ہورہی ہیں جب میاں نواز شریف جے آئی ٹی میں پیش ہو کر ملک میں قانون کی بالا دستی کی ذیل میں اہم روایت قائم کرنے جا رہے ہیں اور انہوں نے اس باب میں اپنا استثنیٰ کا حق استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔جے آئی ٹی نے ایک بھی دستاویزی ثبوت پیش کئے بغیر جو الزامات عائد کئے تمام ہی حکومتی اداروں نے ان کی تردید کرتے ہوئے عدالت میں جواب دینے کا اعلان کیا ہے۔ نیب، ایس ای سی پی، ایف بی آر اور آئی بی کا تفصیلی اور مدلل ردعمل تو بڑی حد تک سامنے آبھی چکا ہے۔ اس طرح سپریم کورٹ پر مذکورہ الزامات اور اداروں کے جوابی رد عمل کا جائزہ لینے کا اضافی بوجھ بڑھ گیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جے آئی ٹی نے خادم پنجاب شہباز شریف کو حدیبیہ پیپر ملز کے کاغذات سمیت 17جون کو طلب کر لیا ہے اور میاں شہباز شریف نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ قطری شہزادہ شیخ حماد بن جاسم نے جے آئی ٹی کے سامنے بیان قلمبند کرانے کی پیش کش اس شرط کے ساتھ کردی ہے کہ تحقیقاتی ٹیم قطر آ کر ان کا انٹرویو کرلے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جے آئی ٹی عدالت عظمیٰ کی مقرر کردہ مدت میں متعین سوالات پر کھلے ذہن کے ساتھ غیر جانبدارانہ رپورٹ پیش کرنے پر توجہ دے۔30دن کی باقی ماندہ مدت اتنی زیادہ نہیں کہ دائرہ کار کو پھیلایا جاتا رہے ۔تحقیقات جس نوعیت کی ہے اس میں کسی کی تضحیک کرنے یا لازماً نتائج نکالنے کی کوششوں سے انصاف کے تقاضے مجروح ہوں گے۔سیاست دانوں اور حکومتی حلقوں کے بھی مدنظر رہنا چاہئے کہ جے آئی ٹی کو صرف رپورٹ پیش کرنا ہے، فیصلہ عدالت عظمیٰ کو کرنا ہے جو ہر پہلو سے جائزہ لے گی کہ رپورٹ کس حد تک قابل قبول یا ناقابل قبول ہے۔ اس میں کوئی خامی نظر آئی یا طے شدہ طریق کار سے انحراف سامنے آیا تو عدالت خود اس کا نوٹس لے گی۔ اس لیے جے آئی ٹی پر سیاست کا کوئی منطقی جواز نہیں۔ اس کے منفی مضمرات سے گریز میں ہی سب کی بہتری ہے۔

 

.

تازہ ترین