• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک عزیز دوست جے آئی ٹی کے حوالے سے چند اہم نکات سامنے لائے ہیں جو میں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتاہوں ، ملاحظہ فرمائیں:۔
پاناما لیکس کے بارے میں قائم پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کو سامنے آئے ڈیڑھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ 20اپریل کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے عدالت ِعظمیٰ نے 2مئی کو ایک تین رکن بنچ قائم کردیا۔ یہ بنچ بڑے پانچ رکنی بنچ میں شامل ان تین جج صاحبان پر مشتمل تھا جنہوں نے اکثریتی فیصلہ لکھا۔ اس فیصلے کی روح معاملے کی مکمل چھان بین کرنے کے لئے ایک ایسی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا قیام تھی جسے 60دن کے اندر اندر اپنی رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کرنا ہوگی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں نہایت واضح اور دوٹوک انداز میں لکھا کہ:
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ان ارکان پر مشتمل ہوگی۔
(۱) ایف آئی اے کا ایک سینئر آفیسر جو ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے کم نہ ہو اس ٹیم کی سربراہی کرے گا۔
(۲) نیب کا ایک نمائندہ
(۳) سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کا نامزد کردہ ایک نمائندہ
(۴)ا سٹیٹ بنک آف پاکستان کا ایک نمائندہ
(۵) ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے نامز کردہ آئی ایس آئی کا ایک تجربہ کار نمائندہ
(۶) ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس کی طرف سے نامزد کردہ ایم آئی کا ایک تجربہ کارنمائندہ
عدالتی فیصلے میں اس جے آئی ٹی کے لئے جو طریقہ کار طے کیا گیا وہ یہ تھا کہ اان نامزد ارکان کی سفارش کا اختیار کلی طور پر متعلقہ محکموں/اداروں کے سربراہوں پر چھوڑ دیا گیا۔عدالت خوداس عمل سے الگ ہوگئی۔ وضع کردہ طریقہ کاریہ طے تھا:۔
The heads of the aforesaid departments / institutions shall recommend the names of their nominees for the JIT within seven days from today which shall be placed before us in chambers for nomination and approval.
’’سات دن کے اندر اندر مذکورہ بالا محکموں / اداروں کے سربراہ جے آئی ٹی کے لئے اپنے نامزد کردہ افراد کی سفارشات مرتب کریں گے جو چیمبرز میں ہمارےسامنے حتمی نامزدگی اور منظوری کیلئے پیش کئے جائیں گے۔‘‘
گویا یہ د و مرحلوں پر مشتمل عمل تھا۔
(۱) JIT کے لئے ممبران کی نامزدگی اور سفارش جس کا مکمل اختیار متعلقہ محکموں اور اداروں کےسربراہوں کو دیا گیا۔
(۲) کامل آزادی اور صوابدیدی اختیار کے تحت مرتب کی گئی یہ فہرستیں چیمبرز میں جج صاحبان کو پیش کی جائیں گی اور جج صاحبان ان سفارش کردہ ناموں میںسے کسی ایک رکن کو نامزد کرکے اس کے نام کی منظوری دیںگے۔
پہلے مرحلے کا تعلق محکموں /اداروں کے سربراہوں سے تھا جس سے عدالت ِ عظمیٰ کا قطعی طورپر کوئی واسطہ نہ تھا۔
جبکہ دوسرے مرحلے کا تعلق خود عدالت ِعظمیٰ سے تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اپنےفیصلے کے تحت عدالت نے اپنے اختیار کو محدود کرلیا۔ جج صاحبان نے خود کوپابند کرلیا کہ وہ انہی ناموں میں سے نام چنیںگے جو ان کے سامنے پیش کئےجائیں گے۔ انہیں کسی مخصوص فردکا نام، محکموں/اداروں کی طرف سے سفارش کردہ ناموں کی فہرست میں ڈالنے یا ڈلوانے کا اختیار نہ تھا۔ عدالتی فیصلے سے تمام متعلقہ محکموں /اداروں کو آگاہ کردیاگیا۔ ان محکموں اور اداروں نے عدالتی فیصلے اور ہدایات کے مطابق تین تین افرادنامزد کرکے 26اپریل تک عدالت ِعظمیٰ کو بھیج دیئے۔
یہاں سے واقعات کا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے جو آج تک میڈیا پر زیربحث ہے لیکن اس کی پراسراریت کم ہونے کے بجائے گہری ہوتی جارہی ہے۔ محکموں /اداروں کی طرف سے سفارشات بھیج دیئے جانے کے صرف ایک دن بعد 27اپریل کو کم از کم دو اداروں سکیورٹی اینڈایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور اسٹیٹ بنک کو تحریری طور پرہدایت کی گئی کہ وہ دو دو مزید نام بھیجیں۔ اسی روز رجسٹرار سپریم کورٹ کے دفتر کے سرکاری ٹیلیفون نمبرز سے دونوں اداروں کو کالز موصول ہوئیں۔ کالز کرنےوالے نے خود کو عدالت کے رجسٹرار اربا ب محمد عارف کے طور پر متعارف کروایا۔ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے چیئرمین سے گفتگو میں کہا گیا کہ میں ابھی آپ کو وٹس ایپ نمبر سے کال کرتاہوں۔ فوراً بعد وٹس ایپ نمبرسے کال موصول ہوئی۔ خود کو رجسٹرار ظاہر کرنے والے شخص نے چیئرمین ظفرحجازی سے تصدیق کی کہ کیاانہیں دومزید نام بھیجنے کا خط موصول ہو گیا ہے؟ انہوں نے تصدیق کی تو کہا گیا کہ آپ ان دو ناموں میں بلال رسول کا نام شامل کریں۔ رجسٹرار کی طرف سے فیکس کئے گئے خط میں بلال رسول کا کوئی تذکرہ نہ تھا بلکہ صرف اتنا کہا گیا کہ دو مزید نام ارسال کئے جائیں۔ چیئرمین نے اپنے رفقا سے مشورے کے بعد پراسرار وٹس ایپ کال کے بجائے تحریری ہدایت کو ترجیح دی اور دو نئے نام (علی عظیم اکرام اور یاسر منظور) ارسال کردیئے۔ ان میں بلال رسول کا نام شامل نہیں تھا۔
تقریباً اسی طرح کی کہانی اسٹیٹ بنک کی ہے۔ بنک کے ڈپٹی گورنر کے مطابق انہیں 27اپریل کو ہی ویسی ہی ایک کال رجسٹرارکے سرکاری نمبر سے موصول ہوئی۔اسی طرح کہا گیا کہ آپ کو دو مزید نام بھیجنے کے لئے لکھا جارہا ہے۔ اسی طرح کہا گیا کہ ابھی آپ کو میں وٹس ایپ کال کر رہا ہوں۔ اسی طرح وٹس ایپ کال کرکے کہا گیا کہ میں رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب محمد عارف بول رہاہوں۔اسی طرح ہدایت کی گئی کہ آپ دو ناموں میں عامر عزیز کا نام شامل کریں۔
2مئی 2017کو سہ رکنی عملدرآمد بنچ قائم ہو گیا۔ 3مئی کو مقدمے کی پہلی سماعت کے دوران جج صاحبان نے برہمی کا اظہار کیا اور دونوں اداروں کی طرف سے بھیجے گئے نام مسترد کردیئے۔ جج صاحبان نے کہا کہ ’’ہمارے ساتھ کھیل مت کھیلیں۔ ہیرے جیسے شفاف لوگ چاہئیں۔ کسی کے ہاتھ یرغمال نہیں بنیں گے۔ جے آئی ٹی کے لئے ناموں کا انتخاب خود کریں گے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اسٹیٹ بنک اور سکیورٹی ایکسچینج کے سربراہوں کواگلے روز عدالت میں طلب کرلیا گیا۔ یہ ہدایت بھی جاری کردی گئی کہ دونوں ادارے گریڈ 18 سے اوپر کے تمام افسروں کے نام اپنی فہرست سفارشات میں شامل کریں۔ عدالتی حکم کے مطابق دونوں اداروں نے گریڈ 18 سے اوپر کے افسران کی فہرستیں جمع کرادیں۔ ان فہرستوں میں سے عدالت نے دو نام چن لئے۔ سکیورٹی ایکسچینج کمیشن سے بلال رسول اور اسٹیٹ بنک سے عامر عزیز۔ یوں JIT تشکیل پاگئی۔
انصار عباسی کی پہلی سٹوری ’’جنگ‘‘ اور ’’دی نیوز‘‘ میں چھپی جس کے بعد اک بھونچال سا آگیا۔ اس کے بعد کئی مزید متعلقہ خبریں سامنے آئیں۔ سکیورٹی ایکسچینج کمیشن اور اسٹیٹ بنک نے اپنا تفصیلی موقف پیش کیا۔ میڈیا پر اٹھنے والی بحث نے متعدد سوال پیدا کردیئے۔ اگرچہ نہال ہاشمی کیس کی سماعت کے دوران بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہہ دیا کہ نام ہم نے منگوائے تھے لیکن سوالات اپنی جگہ موجود ہیں اور ان کے واضح جوابات نہیں آرہے۔ مثلاً یہ کہ:۔
(۱) کیا عدالتی فیصلے کے مطابق جج صاحبان کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ متعلقہ اداروں کو مخصوص نام بھیجنے کیلئے کہیں؟
(۲) کیا سکیورٹی ایکسچینج کمیشن اور اسٹیٹ بنک کو مخصوص ناموں کی نامزدگی کی ہدایت دے کر عدالت نے خود اپنے فیصلے سے انحراف نہیں کیا ؟
(۳) اگر عدالت نے ایسا کیا بھی تو اس کے لئے شفاف طریقہ کار کیوں اختیار نہیں کیا گیا؟
(۴) 27اپریل کو کی جانے والی کالز کا حکم کس نے دیا؟
(۵) اگر یہ سب کچھ عدالت کی ہدایت پر ہو رہا تھا تو ’’وٹس ایپ‘‘ کی خفیہ کال کا سہارا کیوں لیاگیا؟
(۶) 27اپریل ہی کو دو مزید نام بھیجنے کی تحریری ہدایت میں بلال رسول اور عامر عزیز کے نام کیوں شامل نہیں کئے گئے۔
(۷) ان ناموں کا ذکر نہ تو دفتری نمبر سے ہونے والی فون کال میں تھا نہ تحریری ہدایت میں۔ صرف وٹس ایپ کال میں تھا۔ یہ رازداری کیوں برتی گئی؟
(۸) 3مئی کو سماعت کے دورا ن عدالتی بنچ نے دونوں اداروں کی سرزنش کی۔ گریڈ 18سے اوپر کے افسران کے نام بھی مانگے۔ لیکن کسی مرحلے پر نہیںکہا کہ ہم نے جن دو ناموں کی ہدایت کی تھی وہ کیوں شامل نہیں کئے گئے۔ ایساکیوں ہوا؟
(۹) یہ حسن اتفاق کیسے ممکن ہوا کہ طویل فہرستوں میں سے وہی دو نام چنےگئے جن کی ہدایت وٹس ایپ کالز میں دی گئی تھی۔
(۱۰) کھلے کمرہ ٔ عدالت کی کارروائی اور چیمبرز کے اندر کی کارروائی میں تضاد کیوں ہے؟
(۱۱) کیا سکیورٹی ایکسچینج کمیشن اور اسٹیٹ بنک کی نمائندگی کرنے والے افراد ، ان اداروں کے سربراہوں کے سفارش کردہ ہیں یا خود عدالت کے نامزد کردہ؟
(۱۲)اگر یہ خود عدالت کے نامزد کردہ ہیں (جیسا کہ وہ ہیں) تو کیا یہ 20اپریل کے عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی نہیں؟
(۱۳) کیا یہ سارا عمل ’’شفافیت‘‘ اور انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے؟
(۱۴) میڈیا میں اٹھنے والے طوفان اور لاتعداد سوالات کے باوجود ابھی تک عدالت کی طرف سے کوئی واضح جواب کیوں نہیں آیا؟
ان سوالات کے جوابات شریک ِ مقدمہ کسی فریق کے مفاد میں ہوں یا نہ ہوں، عدالت کی اپنی ساکھ اور انصاف کے مسلمہ تقاضوں کے لئے بے حد ضروری ہیں کیونکہ ایک چیز پوری طرح جھلک رہی ہے کہ JIT میں مخصوص افراد کو لانے کے لئے کچھ نہ کچھ ایساضرور ہو رہا تھا جو کھلی عدالت میں سب کے سامنے نہیں تھا۔

 

.

تازہ ترین