• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تین سال قبل سابق آمر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا کیس شروع ہواتو تمام آئینی و قانونی ادارے بے بس نظر آتے تھے۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے بعد بننے والی خصوصی عدالت نے جب سابق آرمی چیف کو طلب کیا تو اس دن یہ خاکسار خصوصی عدالت میں ہی موجود تھا۔معزز جج صاحبان کی موجودگی میں رینجرز اہلکاروں نے نیشنل لائبریری کے اندرونی و بیرونی احاطے کو اپنے کنٹرول میں کرلیا تھا حتیٰ کہ عدالتی کارروائی جس ہال میں کی جارہی تھی ،وہاں پر بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی پوزیشنیںسنبھالی ہوئی تھیں۔اس خاکسار نے وہ منظر بھی دیکھا جب سپریم کورٹ آف پاکستان کے تجویز کنندہ ججز پر باہر نکلنے کے راستے بند کردئیے گئے اور پہلے سنگین غداری کے ملزم پرویز مشرف کو پورے ریاستی پروٹوکول کے ساتھ ان کے فارم ہاؤس بھجوایا گیا۔کہانی صرف یہیں نہیں ختم ہوتی بلکہ قوم وہ دن کیسے بھول سکتی ہے ،جب سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والی خصوصی عدالت کے ججز کمرہ عدالت میں آرٹیکل 6کے ملزم کے منتظر تھے اور آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد انہیں بتایا گیا کہ ایک غیبی کال کے بعد راول چوک سے سابق آمر پرویز مشرف کی گاڑی کا رخ اے ایف آئی سی اسپتال کی طرف موڑ دیا گیا۔جڑواں شہر کے باسیوں نے وہ وقت بھی دیکھا جب ہائیکورٹ کے سینئر ججز پر مشتمل خصوصی عدالت بار بار پرویز مشرف کو حاضر ہونے کا حکم دیتی رہی مگر سابق آمر ہمیشہ ایسے احکامات کو ہوا میں اڑاتے رہے۔مشرف نے جس طریقے سے گزشتہ تین سال کے دوران قانون کا جلوس نکالا ،شاید ہی 70سالہ ملکی تاریخ میںا س کی کوئی مثال ہو،لیکن مشرف چونکہ’قانون سے بالاتر ‘تھے۔اس لئے کوئی قیامت نہیں ٹوٹی۔آج جو ادارے ملک کے منتخب وزیراعظم کی صرف ذاتی انا کی تسکین کی خاطرتذلیل کررہے ہیں ،اس وقت وہ کہاں تھے؟ کیا قانون صرف جمہوری وزیراعظم پر لاگو ہوتا ہے؟ کیا آج بھی کسی ادارے میں اتنا دم خم ہے کہ وہ سنگین غداری کیس کا دوبارہ آغاز کرکے پرویز مشرف کے ریڈ وارنٹ جاری کرسکے؟ قانون سب کے لئے ایک جیسا ہوتا ،مگر پاکستان میں قانون کے معیار مختلف ہیں۔ یہاں پر تو منافقت میں بھی ملاوٹ ہے۔آج غور کرنے کی ضرورت ہے کہ نوازشریف کا جرم کیا ہے؟کیا کوئی ادارہ نوازشریف سے انتقام لے رہا ہے؟پاناما کیس کی بات کریں تو یہ طے ہے کہ لندن کے چار فلیٹس کے علاوہ معاملہ کچھ نہیں تھا۔لیکن سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی آئینی شیلڈ کو جواز بنا کر پچھلے چالیس سالوں کا احتساب شروع کردینا کہاں کا انصاف ہے؟ اگر تین ،تین نسلوں کا احتساب کرنا ناگزیر ہوگیا ہے تو پھر 1947سے احتساب شروع کریں۔جس میں تمام سیاستدان،ججز،جرنیل اور تمام کاروباری افراد کو شامل کریں۔دودھ کا دودھ ،پانی کا پانی ہوجائے گا ۔ نوازشریف تیسری مرتبہ ملک کا وزیراعظم بن جائے اور سویلین بالادستی کی بات کرے تو مجرم ہے ۔کوئی شخص آئین شکنی کرے ،اربوں کی جائیدادیں سمیٹے تو اداروں کے تقدس کا معاملہ سامنے آجاتا ہے۔نوازشریف کے باپ کا نام میاں شریف تھا۔1962میں بھی ملک کے صدر سے ان کے ذاتی مراسم تھے اور ایوب خان اتفاق فاؤنڈری کی مصنوعات دیکھنے آئے تھے۔ناقدین بھی مانتے ہیں کہ جس وقت بھٹو صاحب نے نیشنلائزیشن پالیسی پر عملدرآمد کا آغاز کیا تو اتفاق گروپ کے زیر انتظام چلنے والی چھ فیکٹریوں کو ریاستی تحویل میں لیا گیا تھا۔آج جہانگیر ترین ،عمران خان،پرویز مشرف یا کوئی بھی ’جدیدمعزز‘اپنے والد محترم کے کاروبار کی تفصیل بتاسکتے ہیں۔جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ ان کی آج کی دولت جائز ہے۔کسی کی ذات پر تنقید کرنا مناسب نہیں ہوتا لیکن اللہ جانتا ہے کہ میں بالا تینوں افراد کے والد کا نام تک نہیں جانتا۔افسوس ہوتا ہے کہ آج وہ نوازشریف سے حساب مانگ رہے ہیں کہ فلاں فلیٹ کب اور کیسے خریدے تھے؟
آج مجھے یقین ہوگیا ہے کہ نوازشریف واقعی اس قوم کا مجرم ہے۔اگر نوازشریف اپنے اقتدار کے چوتھے مہینے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی روشنی میں سنگین غداری کے ملزم کا محاسبہ نہ کرتا تو شاید آج ایسا نہ ہوتا۔نوازشریف کا جرم یہ ہے کہ اس نے ڈان لیکس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور کوئٹہ ائیر بیس پر اس وقت کی قیادت کو دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ’میرے گھر تک تو آپ پہنچ گئے ہیں،میری بیٹی کو تو غدار بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور اس پر کیا بات کریں‘نوازشریف کا جرم یہ ہے کہ اس نے آج کی قیادت سے ذاتی مراسم کے باوجود سویلین بالادستی کی خاطر ٹوئٹس معاملے پر اسٹینڈ لیا۔ نوازشریف کا جرم یہ ہے کہ اس نے بار بار کی کوششوں کے باوجود توسیع دینے سے انکار کردیا تھا، نوازشریف کا جرم یہ ہے کہ اس نے کسی کا نامزد کردہ شخص کوسربراہ لگانے سے انکار کردیا تھا۔حق بات کہنی چاہئے اور جو شخص حق بات کرنے کی جرأت نہیں رکھتا اس سے بڑا کوئی منافق نہیں ہوتا۔اسی پر قتیل شفائی نے کہا تھا کہ
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
افتخار چوہدری تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔آج سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری بہت یاد آئے ہیں۔پیپلزپارٹی کی کرپشن سے لاکھ اختلافات کے باوجود افتخار محمد چوہدری نے کبھی بھی زرداری حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا۔زرداری حکومت کی بدانتظامیوں پر ہمیشہ کڑا احتساب کیا گیا مگر
کبھی بھی ریاستی اداروں کو آئینی ڈھال فراہم کرکے سویلین بالادستی پر کاری ضرب نہیں لگائی گئی۔افتخار چوہدری کی کوئی خوبی ہو یا نہ ہو مگر سویلین بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لئے ان کی خدمات لازوال ہیں۔افتخار چوہدری نے کبھی کسی جے آئی ٹی میں انٹیلی جنس ادارو ں کے نمائندے شامل نہیں کئے۔آج افسوس ہوتا ہے کہ نوازشریف سے ذاتی انتقام لینے کے لئے غیر آئینی اداروں کو آئینی تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔مورخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔خدارا نوازشریف کا احتساب اپنی اناکی قیمت پر مت کریں۔آپکی انامیں شاید نوازشریف کا اقتدار نہ رہے مگر باقی کوئی بھی نہیں رہے گا۔نوازشریف پر وار پہلا قدم ہے،ان قدموں کی آخری منزل آپکی دہلیز ہے
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

 

.

تازہ ترین