• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہنگامہ ہے کیوں برپا؟
اکثر دیکھا گیا ہے کہ کہیں بہت سے لوگ جمع ہیں، اس ہجوم میں داخل ہو کر آپ جس سے پوچھیں کیا بات ہے یہ سب کیوں اکٹھے ہیں؟ تو وہاں موجود ہر شخص جواب دیتا ہے پتہ نہیں، اب اندازہ لگائیں کہ اگر کسی کو معلوم ہی نہیں کہ کیا ہوا تو وہ کیوں وہاں کھڑا ہے؟ گویا ہمارے اجتماعی رویئے میں بے مقصدیت گلیوں چوراہوں سے ایوانوں تک پہنچ گئی ہے، بھارت نے اب تک کتنے مذاکرات کئے جس کا ایجنڈا بے مقصد تھا اور ہم بھی ان بے مقصد مذاکرات کو مسلسل رونق بخشتے ہیں یہ نہیں سمجھتے کہ ہمیں بیوقوف بنایا جا رہا ہے، چکوال کے ایک علاقے میں ایک گدھا کئی دنوں سےچپ چاپ اکیلا کھڑا رہا، لوگوں نے ایک دو روز اسے دیکھا تو اس کے گرد جمع ہونے لگے، نہ جانے گدھے کو کیا بیماری تھی کہ وہ چارہ بھی نہیں کھاتا تھا اور الگ تھلگ پریشان کھڑا رہا اور ایک دن وہ گر کر فوت ہو گیا، اب کیا تھا افواہ پھیل گئی کہ یہ گدھا فقیر تھا اور پہنچا ہوا تھا، بھوکا پیاسا حالت قیام میں رہا اور جان دے دی، قصہ کوتاہ اس کا مزار بنا، تدفین ہوئی اور کتبہ لگا دیا گیا دربار حضرت کھوتے شاہ، پھر عرس بھی شروع ہو گیا، اور یوں ایک دکان فقیری کھل گئی، اور کچھ چرسیوں، بھنگیوں کی یہ ترکیب اتنی کامیاب ہوئی کہ اب کسی کو اصل کہانی بتائی جائے تو وہ مرنے مارنے پر تیار ہو جاتا ہے، ہماری ضعیف الاعتقادی پر لاکھوں مشٹنڈے پل رہے ہیں۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہم اصل مقصد سے کس قدر دور چلے گئے ہیں، ہم نے خواتین کو دیکھا کہ وہ خواجہ سرائوں سے اپنے بچوں کو دم کراتی ہیں، وہ کہتی ہیں یہ فقیر ہوتے ہیں اور پہنچے ہوئے، کیا کہنا اس معاشرے کا کہ یہاں جہالت سے فقیری دو قدم ہے، کوئی نہیں جانتا ہے کہ فقیر صاحب فقر ہوتا ہے اور فقر فخر ہوتا ہے کیونکہ وہ صرف اللہ سے مانگتا ہے۔
٭٭٭٭
رونا ہنسنا منع ہے
ہمیں ماضی کے انسان کا علم نہیں لیکن آج کے انسان اور وہ بھی ہمارے اپنے ملک کے انسان نہ جانے کس آشوب یا آسیب کا شکار ہیں کہ کسی سے کہو ہنسو تو وہ رو پڑتا ہے، کسی سے کہو روئو تو وہ ہنس دیتا ہے۔ ہر شخص اللہ کا شکر ادا کرنے سے شروع کرتا ہے اور ناشکری پر اپنی کہانی ختم کر دیتا ہے اور حیرانی ہے کہ اس طرز عمل میں کوئی استثناء بھی نہیں، یعنی ہم سب کا رونا ہنسنا اضافی حقیقت ہے، کسی کو اس کے خوش ہونے پر مبارکباد دیں تو وہ ایک طرف لے جا کر اپنی غم بھری داستان سناتا ہے، اور کہتا ہے تم میرے کتنے نادان دوست ہو مجھے ہنستا دیکھ کر سمجھتے ہو کہ میں خوش ہوں، شاید فلسفیوں نے سچ ہی کہا تھا کہ غم ہو خوشی ہو دونوں اصل میں ایک ہیں، صرف ہنسنے رونے کا ہی رونا نہیں ہمارے ہاں اور بھی کئی قسم کے سیاپے ہیں، مثلاً کوئی خوبرو دوشیزہ بے نقاب دکھائی دے تو ہمیں کوئی اچھا شعر یاد نہیں آتا کوئی آیت کوئی حدیث یاد آ جاتی ہے تاآنکہ ہم مذہب کے زور پر چاند کو بدلی میں لے ہی جاتے ہیں، اور اگر کوئی ماہ رو فرخندہ جبین نقاب اوڑھے دکھائی دے تو کہتے ہیں؎
یہ جو چلمن ہے تمہاری دشمن ہے ہماری
یا پھر یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتے؎
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
اب تو امر بالمعروف اور نہی من المنکر کی یہ خوبصورت مثالیں ایوانوں تک بھی پہنچ گئی ہیں۔
٭٭٭٭
اسلام راستہ روکنے سے منع کرتا ہے
یوں تو اسلام بہت سی برائیوں سے روکتا ہے، مگر بعض برائیاں جو خلق خدا کا راستہ ہی بلاک کر دیں۔ وہ چاہے عبادت کی آڑ میں کی جائیں تب بھی برائیاں ہی ہوتی ہیں اس لئے اپنی نیکیوں کو بچایئے کہ شیطان رجیم اکثر اچھائی کا جھانسہ دے کر اچھے اچھے نیکو کاروں سے گناہ سرزد کرا لیتا ہے۔ اکثر مساجد میں جب جمعتہ المبارک کی نماز ادا ہو رہی ہو تو صبح ہی سے عام سڑک جو کسی کی ملکیت نہیں ہوتی روک دی جاتی ہے اور وہاں صفیں بچھا دی جاتی ہیں، ٹریفک روک، راستہ بند کر کے نماز کی ادائیگی کے جواز عدم جواز بارے کیا فرماتے ہیں علماء دین متین؟ پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات میں راستہ روکنے، راستے میں رکاوٹ پیدا کرنے اور راستے میں کھڑے ہونے پر سخت وعید ہے، ایسی کئی احادیث مبارکہ ہیں جیسے راستے کا حق ادا کرو، راستے میں کھڑے ہونے سے پرہیز کرو، ہم جیسے کم علم افراد نہیں جانتے کہ نماز جمعہ کے لئے عام سڑک کو بند کر دیا جائے یہ جائز ہے یا ناجائز، اس لئے علماء کرام اس سلسلے میں قوم کی رہنمائی فرمائیں، ہم سے کئی لوگ پوچھتے ہیں کہ نماز کے لئے مسجد سے باہر عام گزرگاہ کو بند کیا جا سکتا ہے یا نہیں، ہماری یہ بساط نہیں کہ کوئی فتویٰ دے سکیں اس لئے شہریوں کے اس مسئلے کو حل کریں، ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کئی مساجد میں سینکڑوں افراد کی جگہ جمعہ کے روز خالی ہوتی ہے، مگر لوگ وہاں نہیں جاتے اپنی اپنی پسندیدہ اور گھر سے قریب کی مسجد میں نماز ادا کرنے کے باعث بعض مساجد بھر جاتی ہیں پھر چلتی مصروف سڑک کو جمعہ شروع ہونے سے پہلے روک دیا جاتا ہے، شامیانے لگ جاتے ہیں، بیریئر کھڑے کر دیئے جاتے ہیں، اورخلق خدا اذیت کا شکار ہوتی ہے۔ بیزا و توجروا
٭٭٭٭
غریب کے ہاتھوں کی مرغیاں اڑ گئیں
....Oمرغی کا گوشت پھر مہنگا قیمت 180روپے فی کلو،
بجٹ کا فخر مرغی کا سستا ہو جانا تھا، مگر اب مرغی بھی غریب روزہ دار کے ہاتھ سے نکل گئی، امیروں کے ہاتھوں کے طوطے اور غریب کے ہاتھوں کی مرغیاں اکثر اڑ جاتی ہیں۔
....Oاسٹیٹ بینک کی ناک تلے نئے کرنسی نوٹوں کی بلیک کا بازار گرم،
ہے خبر گرم کہ عید کی آمد آمد ہے
اور اسٹیٹ بینک کی ناک جامد جامد ہے
....Oوالڈ سٹی اتھارٹی کی جانب سے بادشاہوں کے دور کے شاہی کچن کی بحالی کا کام جاری،
عوامی کچن کی بربادی کا کام بھی جاری، یہ تو اپنے اپنے دور کے تقاضے ہیں، بلاشبہ یہ شاہی کچن جسے انگریزوں نے اصطبل بنایا اس کی بحالی قوم کے عظیم تر مفاد میں ہے، دیر نہ کی جائے۔
....Oشادمان رمضان بازار میں ناقص اشیاء
رمضان غریباں ایسے ہی منایا جاتا ہے،
....Oاپنی غربت و کلفت کی بات کرو
سیاست حکومت ’’نوں پراں کرو‘‘
....Oیہ جو آج طبقہ امراء کچھ گھبرا سا گیا ہے ان کی طرف مت دیکھو اپنی محرومیوں کا جشن منائو بڑا اندھیرا ہے،

 

.

تازہ ترین