• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ شعر اور مصرعے اپنی بے پناہ خوبصورت بُنت، خیال اور معنی کے حوالے سے دل کو یوں بھاتے کہ پورا وجود عش عش کر اٹھتا ہے۔ تن پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، من نہال ہو جاتا ہے اور روح جھوم اٹھتی ہے۔ اگرچہ یہ اشعار اپنے اندر معنی کا ایک وسیع جہان رکھتے ہیں مگر بیان کی سادگی اور سہلِ ممتنع انہیں ہر دل کی آواز بنا دیتے ہیں۔ اردو شاعری کا شہنشاہ غالبؔ جس کا ہر شعر بلکہ ہر مصرع نئے شعری افق کی خبر دیتا ہے، کو مومن خاں مومنؔ کا ایک شعر یوں دیوانہ کر گیا کہ دنیا کو مومن کی بجائے غالبؔ کی اس شعر کے لئے وابستگی کی وجہ سے یاد رہ گیا۔ ’’تم مرے پاس ہوتے ہو گویا، جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا‘‘۔ غالب نے اس شعر پر اپنا پورا دیوان نچھاور کر دیا تھا کیوں کہ اس شعر کا مضمون ہی کچھ ایسا تھا۔ یہ سلسلہ رُکا نہیں ہے۔ ابھی بھی کچھ اشعار ایسے پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا جب میں نے یہ شعر پڑھا اور دیر تک اس کے حُسن اور دلکشی کے حصار نے مجھے جکڑے رکھا۔
جتنا دھڑکا ہوں تیرے سینے میں
میری اتنی ہی زندگانی ہے
یہ شعر مجھے ازبر نہیں ہوا بلکہ میرے احساس میں سماء گیا ہے۔ میں اِس کی شعریت اور معنویت پر حیراں و شاداں ہوں۔ یہ شعر رضی الدین رضی کی حال ہی میں شائع ہونے والی خوبصورت کتاب کے ماتھے کا جھومر ہے اِس لیے کہ اِس شعر کا پہلا مصرع کتاب کا نام بھی ہے۔ اِس شعر کی ظاہری خوبصورتی کے سحر سے نکل کر جب اِس کے باطن کی طرف دھیان کریں تو ایک اور حیرت اور سر شاری تن من پر طاری ہوتی نظر آتی ہے۔ شاعر کا یہ کہنا کہ جتنی دیر وہ محبوب کے دل میں دھڑکا اتنی دیر ہی جیا ہے ایک نرالا اور حسین خیال ہے۔ دل انسان کے اپنے وجود میں دھڑکتا ہے البتہ اُس کی دھڑکن محبوب کے اشاروں سے بندھی دھمال ڈالتی رہتی ہے لیکن یہاں محبوب کے دل میں دھڑکنے سے مراد محبوب کے کامل وصل سے ہمکنار ہونا ہے جب محبت وجود کی حدوں سے نکل کر روح سے ہم آہنگ ہو جائے دل روح کا اظہار ہے۔ جب انسان کسی سے محبت کرتا ہے تو اُسے اپنے دل میں بساء لیتا ہے ہر لمحہ اس کی پرستش کرتا ہے۔ شاعر کو بھی یہ محبت نصیب ہوئی وہ بھی کسی کے دل کا مہمان ہو کر اُس کے دل کی دھڑکن کے ساتھ دھڑکتا رہا۔ زندگی کا دارو مدار دھڑکن پر ہے دھڑکا سے مراد صحیح معنوں میں زندہ رہنا بھی ہے۔ وہ وقت شاعر کے خیال کے آسمانوں پر ٹھہر گیا ہے کیونکہ اُس وقت شاعر کا احساس اور شعور زندگی کی مسرتوں سے ہم آہنگ ہو کر وحدت اور یکجائی کے اُس سفر کی طرف روانہ تھے جو زندگی کا حاصل ہے۔ اسی لیے زندگی نے اِس دوران اُس پر اپنے اصل رنگ اور اسرار ظاہر کیے۔ وہ لمحہ بہت حسین تھا جب اُسے علم ہوا کہ جینا کسے کہتے ہیں۔ زندگی صرف بنیادی ضرورتوں تک محدود نہیں بلکہ کسی کا ہو کر رہنے اور اُس کے دل میں جگہ پانے کا نام ہے۔ ایک شاعر کے لئے زیست کے یہی معنی ہوسکتے ہیں وہ محبوب کے لیے دنیا کی بادشاہی کو ٹھوکر مار سکتا ہے کیونکہ دل کی حکمرانی تسلیم کرنے اور محبوب کی رضا کے ساتھ اپنی رضا کو ہم آہنگ کرنے میں جو سر شاری اور طمانیت ہے اُس کے سامنے بڑے بڑے عہدے اور رتبے ہیچ نظر آتے ہیں۔ رضی الدین رضی ملتان کی روحانیت میں رچی بسی فضائوں میں سانس لینے والا ایسا شاعر ہے جس نے اپنے جداگانہ انداز اور شعری حسن سے ایک دنیا کو متاثر کیا ہے۔
رضی الدین رضی کی شخصیت اور شاعری ایک دوسرے کی آئینہ دار ہیں۔ جس طرح ان کے رویے میں حُسنِ سلوک، محبت اور اپنائیت جھلکتی ہے شاعری بھی اسی مزاج کی عکاس ہے۔ دل میں گھر کرنے والی، شعریت میں رچی، روایت اور جدّت کے سنگم پر کھڑی فِکر اور احساسات میں گندھی زبان سچے جذبات کی آئینہ دار ہے۔ اگر ہم کتاب کے نام پر ہی بات کریں تو شاعر کا فلسفۂ حیات اور شعری نظریہ واضح ہو جاتا ہے۔ شاعری ازخود دھڑکتے دل کے احساسات کو لفظوں میں پرونے کا نام ہے۔ رضی الدین رضی نے یہ شعر کہتے ہوئے جانے احساس کے کس دریا کو پار کیا ہو گا۔ محبت کی کونسی مسرت سے ہمکنار ہوا ہو گا مگر اس نے قاری کو جو سرشاری اور سرخوشی عطا کی ہے اس کے لئے اردو ادب اس کا احسان مند رہے گا کیوں کہ ایسے شعر زبان کی نیک نامی بن جاتے ہیں۔ رضی الدین رضی کو آپ اَدب یا فلسفے کے حوالے سے کسی ایک گروہ یا طبقے سے نتھی نہیں کر سکتے۔ اُن کی شاعری ترقی پسند سوچ کے پروں پر بیٹھ کر آگے بڑھتی ہے لیکن پہلے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے نیا راستہ بناتی ہے۔ 136 صفحات پر مشتمل غزلوں اور نظموں کے اِس مجموعے میں بہت سے اشعار اور مصرعے دھیان کی اُنگلی پکڑ کر معنی کے تہ خانے کی طرف لے جاتے ہیں جہاں قاری کو نئے امکانات سے واسطہ پڑتا ہے۔ ہر شعر میں ایک عجب کہانی ہے نیچے درج شعر کو پڑھ کر محسوس ہوا کہ ایک مایوس اور دُکھی انسان کا کتھارسز اس طرح بھی ممکن ہے کہ اُس کے دکھوں سے بڑا منظر نامہ پیش کر دیا جائے۔
اس طرح اپنے دکھ سناتا تھا
وہ مرا حوصلہ بڑھاتا تھا
معنویت، اسرار اور ایک پوری کہانی چھوٹی بحر کے ایک شعر میں سمونا اور لفظوں سے کھیلنا شاعر کا ہنر ہے۔ زبان بالکل سادہ، سہل اور عام بول چال کے قریب مگر شعری حسن سے مالا مال۔
پہلے پھولوں کے ہار پہنے ہیں
پھر کہیں جا کے ہار مانی ہے
’’کسی کا آخری خط ہے‘‘ یہ نظم اپنے عنوان سے لے کر اختتام تک زندگی کی مختلف پرتیں کھولتی دُکھ سُکھ بیان کرتی، احساس کو کچوکے لگاتی، پچھتاوؤں اور پشیمانیوں پر آزردہ ماحول کی تصویر بناتی ہے۔ ہم اُس منظر کا حصہ ہو جاتے ہیں جس میں برکھا، آندھی، طوفان، آنکھیں، خوشبو، جگنو اور اُجڑا ہوا آنگن موجود ہے۔ محسوس ہوتا ہے پڑھنے والا بھی کسی دیوار کے ساتھ لگ کر بچھڑنے والے کے تصور میں کھوئے ہوئے شاعر کے درد اُگلتے قلم کی آواز سُن رہا ہے۔ زندگی کے لئے سب سے بڑا تحفہ زندگی ہے ہجر میں گزرنے والے پَل موت کی وحشتوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ تیرگی اور زندگی دو متضاد پہلو ہیں۔ تیرگی تنہائی اور بے بسی سے عبارت ہے جبکہ زندگی خوشیوں کے میلے کا نام ہے۔ اِسی لیے شاعر کہتا ہے۔
تیرگی کو ختم کر کے روشنی لے آؤں گا
زندگی تیرے لیے میں زندگی لے آؤں گا
پھول سے کہنا ابھی مہکے مہک سکتا ہے وہ
چاند سے کہنا میں اُس کی چاندنی لے آؤں گا
یہ زمانہ دُکھ اُچھالے گا مری جانب رضیؔ
جھولیاں بھر بھر کے میں بھی شاعری لے آؤں گا
بلاشبہ رضی الدین رضی وہ شاعر ہے جو زندگی کے ٹیڑھے میڑھے راستوں پر پھیلتی تلخ حقیقتوں کو خوبصورت لفظوں کی مالا میں پرو کر ایک طرف جمالیاتی ذوق کی تحسین کرتا ہے تو دوسری طرف اپنے عہد کی سچی تصویر کشی کرتا ہے۔ دُعا ہے کہ وہ سخن وروں کو اسی طرح اپنی شاعری کے سحر میں گرفتار رکھے کیونکہ یہ سحر سرشاری سے عبارت ہے۔

 

.

تازہ ترین