• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما لیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 20؍اپریل کے فیصلے کے تحت 6اداروں کے نمائندوں پر مشتمل جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) اپنی 60روزہ میعاد کے اختتام پر تین رکنی عدالتی بنچ کے روبرو جو بھی حتمی رپورٹ پیش کرے اور عدالت عظمٰی اس پر جو بھی فیصلہ دے، اہم ترین بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں سرکاری مشینری اور جمہوری اداروں میں پائی گئی متعدد خامیوں کے باوجود عوام کے ذہنوں میں راسخ جمہوریت ہی فاتح ہے۔ آمریت کو دوام بخشنے کی ہر کوشش کی ناکامی، چند لاکھ وکلاء کی پرعزم تحریک کے آگے ڈکٹیٹر کا گھٹنے ٹیکنا، عدالت کے فیصلے پر ایک وزیر اعظم کا گھر چلے جانا اور ذرائع ابلاغ پر ہونے والی تنقید کا کسی نہ کسی طور برداشت کیا جانا اس کی مثالیں ہیں۔ جمعرات 15؍جون 2017ء کو تیسری بار منتخب ہونے اور دو تہائی اکثریت رکھنے والے وزیر اعظم کا اپنے ماتحت اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ٹیم کے سامنے پیش ہوکر بیان ریکارڈ کرانا ایسا واقعہ ہے جس نے وطن عزیز میں جمہوری نظام کی کامیابی پر مہر ثبت کردی ہے۔ ایٹمی طاقت کا حامل ملک پاکستان جمہوریت کی اس طاقت کے حصول کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جو وسائل پر قابض اشرافیہ کے استحصالی ہتھکنڈوں کے خلاف موثر ڈیٹرنس بن سکتی ہے۔ پاناما کیس کا فیصلہ کیا آئے گا؟ اس باب میں پیش گوئی ممکن نہیں۔ مگر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ملک میں احتساب کی ایسی روایت قائم ہوچکی ہے جس کے لئے سیاستدانوں کو ہی نہیں ججوں، جرنیلوں، جرنلسٹوں سمیت تمام شعبوں اور طبقوں کے لوگوں کو تیار رہنا چاہئے۔ اس تیاری کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ لین دین کے معاملات اور سرکاری و نجی امور میں قانون کی پاسداری نہ صرف خود ملحوظ رکھی جائے بلکہ دوسروں سے بھی اس باب میں کوئی مفاہمت نہ کی جائے۔ میاں نوازشریف نے بند کمرہ اجلاس میں جے آئی ٹی کے سامنے سپریم کورٹ کے 13سوالوں کے جو جوابات دئیے وہ عدالتی بنچ کے سامنے پیش کی جانے والی حتمی رپورٹ کا حصہ بنیں گے اور ان کا کسی طور بھی افشا کیا جانا مناسب نہیں۔ وزیر اعظم سے قبل ان کے صاحبزادے حسین نوازاور حسن نواز کئی کئی بار جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوچکے ہیں جبکہ ان کے بھائی شہباز شریف بھی جو پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں ،جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے لئے تیارہیں۔ نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز کے شوہرکیپٹن (ر) صفدر کو بھی ہفتہ 24؍جون کو بلایا گیا ہے جبکہ قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم بھی مشروط طور پر بیان قلمبند کرانے کیلئے تیارہیں۔ اس معاملے کا خوشگوار پہلو یہ ہے کہ میاں نواز شریف، ان کے متعلقین اور دیگر افراد ایسے تحفظات کے باوجود مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہورہے ہیں جو وہ تحقیقاتی ٹیم میں دو افراد کی شمولیت کے حوالے سے رکھتے ہیں۔ دوسری جانب خود جے آئی ٹی بھی ایک رپورٹ کے ذریعہ دستاویزی ثبوت پیش کئے بغیر تحقیقاتی عمل کو نقصان پہنچانے کیلئے سرکاری مشینری کے استعمال کی شکایات پیش کرچکی ہے۔ جہاں تک شریف فیملی کے لئے متعین سوالات کے جوابات کا تعلق ہے، غالب خیال یہ ہے کہ وہ ماضی میں کی گئی بعض وضاحتوں کے اعادے یا ان کی مزید وضاحت پر مبنی ہوسکتی ہیں۔ اس دوران تفتیشی نظام کی بعض خامیوں مثلاً تصویر کے افشا اور غیر ضروری انتظار کرانے جیسے واقعات کی نشاندہی ہوئی جنہیں دور کیا جانا چاہئے۔ اسی طرح مختلف طریقوں سے دی جانے والی سنگین دھمکیوں کی شکایات ایسی نہیں کہ انہیں نظر انداز کردیا جائے جبکہ کئی ممالک میں تفتیش کاروں، وکلاء اور گواہوں کے تحفظ کی تدابیر کرکے دہشت گردوں، منشیات کے اسمگلروں اور انڈر ورلڈ گینگسٹرز کے خلاف موثر کارروائی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اقتدار و اختیار آنے جانے والی چیزیں ہیں مگر آئین اور قانون کی بالادستی کی روایات قوم کا مستقبل سنوارنے کا باعث بنتی ہیں اور ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

 

.

تازہ ترین