• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لگتا ہے، ہم گرتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ لگتا کیا ہے ،ہم درحقیقت گرتے ہی جارہے ہیں۔ ہمارے ’اکابرین‘ کی گفتگو سن لیں، دن بدن ان کا لب و لہجہ ، ایک ذرا مشکل ترکیب استعمال کریں، تو مائل بہ تنزّل ہے۔ یعنی، ہر آئے دن الفاظ کا چنائو، ان کا برتائو، بگڑتا ہی جا رہا ہے۔ وہ جسے ہم حقارت سے نچلا طبقہ کہتے ہیں، وہاں اگر گالم گلوچ ہو تو ہم ناک بھوں چڑھا لیتے ہیں، ان کونفرت سے دیکھتے ہیں، اور اگر موقع ملے تو سمجھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ مگر یہ جو ہمارے ’بڑے‘ لوگ ہیں ان کا کیا کریں؟ ان کا حال تو بہت برا ہوتا جا رہا ہے، آئے دن رو بہ زوال۔
عالم یہ ہے کہ نازو کرشمہ کی تو نہیں، زبان کی تیغِ دودم ایسی چل رہی ہے کہ عزت و آبرو کا کوئی تسمہ لگا نہ رہا۔ سیاستدان ، کہ عوام کے نمائندے ہوتے ہیں ، عوام ان سے تربیت حاصل کرتے ہیں، انہیں تو اپنے قول اور فعل پر زیادہ توجہ دینی چاہئے، جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس کا اثر ان کے کارکنوں پر پڑے گا، ان کی بھی زبان اور رویہ متاثر ہوگا، مگر وہ اس پر توجہ نہیں دیتے، جو جی میں آیا کہہ دیا۔ اور یہ ایسے لوگ بھی کررہے ہیں جن کی شناخت ہی تہذیب اور شائستگی تھی۔ پہلے اگر صرف گالیاں دی جاتی تھیں، تو بات اب کسی کی والدہ اور خاندان تک چلی گئی ہے۔ اور وہ جو دوسرے الفاظ ، یہ کہنا کیا ضروری ہے کہ وہ گھٹیا ہوتے ہیں ، جو آپ اور ہم آئے دن ٹی وی کے ملاکھڑوں میں سنتے ہیں، اور وہاں اکثر و بیشتر جس رویہ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، کسی مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ خرابی دن بہ دن آئی ہے۔ اور جو دھرنوں میں ہم نے سنا۔ وہ کیا تھا؟ سیاسی باتیں اس لہجے میں نہیں ہوتیں، نہیں کی جاتی تھیں، مگر اب ہوتی ہیں ،کی جاتی ہیں۔ سراج الحق صاحب نے فرمایا ’’کیا اسلام آباد نواز شریف کی والدہ اپنے جہیز میں لے کر آئی تھیں‘‘۔ وہ پتہ نہیں کہنا کیا چاہ رہے تھے، مگر زبان پر انہیں کوئی قابو نہ تھا۔ جو کچھ کہا وہ یہ تھا کہ کسی کی والدہ محترمہ کو اُس بحث میں گھسیٹ لیا جس سے اس بے چاری کاکچھ لینا دینا نہیں۔ اور یوں بھی مشرقی روایات کے مطابق، دوسروں کی ماںبہن کو اپنی ماں بہن کی طرح عزّت دینی چاہیے۔ یہ صاحب اپنے پیشرو، مولانا مودودی کے سیاسی وارث تو ہیں ان کے تہذیبی اور اخلاقی وارث لگتے نہیں۔ مولانا مرحوم، اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے، اپنے شدید ترین مخالفین کے بارے میں بھی تہذیب سے گرا ہوا کوئی لفظ استعمال نہیں کرتے تھے۔ایک صاحب اور بھی آگے بڑھ گئے، جوشِ جذبات میں، یا جوشِ خوشامد ہیں، تمام حدود ہی پار کرگئے۔ یہ کیا زبان تھی کہ تمہارے خاندان کے لئے اس ملک کی زمین تنگ کردیں گے۔ فرض کریں، آپ کو کسی سے کوئی شکایت ہے، فرض کریں، تو آپ اپنے آپ کو اس فرد تک محدود رکھیں۔ اس کے خاندان سے آپ کا کیا تعلق؟ اس نے آپ کا کیا بگاڑا ہے کہ آپ تین سال بعد جب وہ ریٹائر ہو جائیں گے تو ان کے خاندان کے لئے اس ملک کی زمین تنگ کردیں گے۔ اوّل تو یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ ایسا کر سکیں۔ آپ کو اپنی طاقت ، بلکہ حیثیت ،کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔ اور آپ نے تاریخ سے کوئی سبق بھی حاصل نہیں کیا ۔ اس کے بعد بھی آپ کا رویہ کسی بالغ جیسا نہ تھا۔ اگر آپ نے سینیٹ سے استعفیٰ دے ہی دیا تھا تو اسے عزّت سے منظور ہو جانے دیتے۔ واپس لے کر اپنی مزید بے عزّتی کروائی۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ آپ کی پارٹی اس معاملہ میں آپ کا ساتھ اتنی دور تک نہیں دے گی۔ اس نے نہیں دیا۔ سینیٹ کی نشست تو آپ کی جائے گی۔ اس کے ساتھ جو تھوڑی بہت عزّت آپ بچا سکتے تھے وہ بھی نہ بچ سکی۔ قومی اسمبلی میں دیکھیں، خواجہ آصف ایک خاتون کو ڈمپر اور ٹرالی کے الفاظ سے پکارتے ہیں۔ اور اکثر وہاں جو زبان استعمال ہوتی ہے مخالفین کے لئے، وہ ہمارے انحطاط کی نشاندہی کرتی ہے۔
کبھی معاملہ کچھ اور تھا ایک گورنر جنرل تھے، غلام محمد، ان کے بارے میںتو اب سب کو پتہ ہے، قدرت اللہ شہاب نے لکھا بھی ہے، وہ اپنے آخری دنوں میں، جب بول نہیں پاتے تھے، تو لکھ کر گالیاں دیتے تھے۔ کافی عرصہ ہوا، ایک سفر پر افغانستان جانا ہوا۔ راستے میں، ممتاز صحافی(میجر) ابن الحسن اپنی یادوں میں ہمیں شریک کررہے تھے۔ وہ ایک زمانے تک آئی ایس پی آر میں رہے تھے، یوں ان کا ربط حکمرانوں سے بھی رہا اور ان کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع بھی ملا۔ کہنے لگے، دن بہ دن حکمرانوں کے لہجے بگڑتے جارہے ہیں۔ اسکندر مرزا پاکستان کے صدر رہے، ان کے سامنے کسی سیاستدان کا تذکرہ ہوا تو انہوں نے جو فقرہ کسا، کم ہی لوگ اس کا مطلب سمجھ سکتے ہوں گے۔ اس کے لئے اردو میں ایک اور لفظ ہے مگر وہ گالی ہے۔ داد مرحوم اسے ’’نا خلف‘‘ کہا کرتے تھے۔ ایوب خان کے بارے میں بھی انہوں نے بتایا، گالی بکتے تھے، مگر عوامی اجتماع میں نہیں۔ البتہ پارٹی کے اجلاس میں یا میٹنگوں میں ، بقول منٹو، ایسے لفظ لڑھکا دیا کرتھے جو گالی ہوں، یا ان کے مترادف۔
ذوالفقار علی بھٹو سیاست میں آئے ، اور عوامی سیاست کی، لب ولہجہ بھی عوامی استعمال کیا۔ وہ عوامی اجتماعات میں بھی گالم گلوچ سے باز نہیں آتے تھے۔ اس زمانے میں انکی تقاریر ریڈیو پاکستان سے براہِ راست نشر ہو اکرتی تھیں۔ ایسی ہی ایک تقریر کے دوران ایک بھاری بھرکم گالی نشر ہو بھی گئی۔ وہ ناقابل اشاعت ہے، اب تک۔ اس کا ایک مخفف کرشن چندر نے اپنے ناول ’شکست‘ میں استعمال کیا ہے۔ بہت بعد میں شاید کسی اور مصنف نے پورا لفظ ہی لکھ دیا ہے، مگر اب بھی دہرایا نہیں جا سکتا۔ بھٹو اپنے مخالفین پر آوازے کسنے اور ان کے نام رکھنے میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔ خان قیوم خان جب مخالف تھے تو انہیں ڈبل بیرل خان کہا، اصغر خان کو آلو، اور ممتاز دولتانہ کو چوہا تک کہہ گئے کہ وہ بیچارے اسی ٹرین میں سفر کر رہے تھے جس میں بھٹو صاحب ، اپنے حامیوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ سوار تھے، اور دولتانہ صاحب کو خطرہ تھا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو سکتی ہے۔ وہ ایک اسٹیشن پہلے اتر گئے، ان کی تصویر بھی کھنچ گئی، اور بھٹو نے ان کا نام بھی رکھ دیا۔
جنرل ضیاء الحق کے بارے میں بھی میجر ابن الحسن نے بتایا کہ وہ بھی نجی محفلوں میں گالیاں بہ کثرت استعمال کرتے تھے، مگر عوامی اجتماعات میں احتیاط کرتے ۔ یعنی، احتیاط کا مطلب یہ کہ، جسے گالی کہیں وہ نہیں بکتے تھے۔ مگر خراب زبان انہوں نے خوب استعمال کی۔ ایک بار انہوں نے کہا، ’سیاستدان کُتّوں کی طرح میرے پیچھے دُم ہلاتے آجائیں‘۔ آئین کا جتنا ’احترام‘ وہ کرتے تھے وہ فقرہ تو اب تک سب کو یاد ہے، کہ آئین کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے، اگر پھاڑ کر پھینک دوں تو کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
پرویز مشرف نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ایک خاتون کیساتھ زیادتی ہوئی، اسکی زندگی یہاں محفوظ نہ رہی ،وہ بیرونِ ملک چلی گئی۔ مشرف نے اس سے ہمدردی کی بجائے کہا: ’’یہ خواتین، کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کیلئے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ ایک صدر مملکت اور اس طرح کی بات۔
اور ادھر یہ ہورہا ہے کہ ایسے الفاظ عام استعمال ہونے لگے ہیں جو کبھی گالی سمجھے جاتے تھے۔ اب یا تو انکا مطلب کسی کو پتہ نہیں یا وہ اپنے پرانے معانی کھو چکے ہیں، مثلاً، پنگا۔ اسکا مطلب کبھی بہت واضح تھا، آج اسے استعمال کرنیوالوں کو بھی پتہ نہیں کہ اسکا کیا مطلب ہے۔ یہ تحریر میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے اور تقریر میں بھی، بغیر اسکا مطلب سمجھے۔ دوسری طرف یہ عالم ہو گیا ہے کہ نازو کرشمہ کی تو نہیں، زبان کی تیغِ دودم ایسی چل رہی ہے کہ عزت و آبرو کا کوئی تسمہ لگا نہ رہا۔ سیاستدان ، کہ عوام کے نمائندے ہوتے ہیں ، عوام ان سے تربیت حاصل کرتے ہیں، انہیں تو اپنے قول اور فعل پر زیادہ توجہ دینی چاہئے، مگر نہیں دیتے۔

 

.

تازہ ترین