• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مالی سال2016-17کے اقتصادی سروے کے ابتدائی صفحات میں وزارت خزانہ نے اس بات کی تکرار کی ہے کہ اس مالی سال میں معیشت کی شرح نمو5.28فیصد رہی جو گزشتہ10برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔یہ بہرحال کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ہے کیونکہ اس مالی سال میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو کا ہدف5.7فیصد تھا جو حاصل نہیں کیا جاسکا۔ یہی نہیں، اس مالی سال میں بھارت اور بنگلہ دیش کی شرح نمو پاکستان سے بہتر رہی ۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ2004-5میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو 9فیصد رہی تھی جو35برسوں میں سب سے زیادہ تھی لیکن چند برس بعد یہ شرح گرکر 0.4فیصد رہ گئی تھی جوگزشتہ52برسوں کی سب سے کم شرح نمو تھی ۔ ہم نے 2005میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’ معاشی ترقی اور استحکام‘‘ میں مشرف دور کی اونچی شرح نمو کو بلبلہ قرار دیاتھا ۔ گزشتہ 4برسوں میں وفاق اور چاروں صوبوں نے جو پالیسیاں اپنائی ہیں انکے نتیجے میں 2016۔2017ء میں معیشت کے بہت سے اشاریوں میں منفی رحجانات نظر آرہے ہیں۔ اس مالی سال میں معیشت کی کارکردگی کے ضمن میں چند حقائق نذر قارئین ہیں۔
1۔2016-17ءمیں پاکستانی برآمدات 2010-11 سے بھی کم رہیں یہ پاکستان کی تاریخ کی بدترین کارکردگی ہے۔
2۔ 2016-17ءمیں اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ5.75فیصد رہا جوکہ گزشتہ44برسوں میں سب سے کم ہے۔ اس فیصلے سے بینکوں کے کروڑوں کھاتے داروں اور قومی بچت اسکیموں میں رقوم جمع کرانے والوں کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا ۔
3۔ حکومت ٹیکسوں کی وصولی کے ضمن میں تاریخی کامیابیوں کے دعوے تواتر سے کررہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ2016-17 میں بھی جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی کا تناسب 1995-96 سے بھی کم رہا ۔ یہی صورت حال2017-18میں بھی برقرار رہے گی ۔ اس مایوس کن کارکردگی کی ذمہ داری وفاق کے ساتھ چاروں صوبوں پربھی عائد ہوتی ہے کیونکہ آئین میں18ویں ترمیم کے بعد بہت سے شعبے بشمول تعلیم اور صحت صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں اور ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے بعد صوبوں کو وفاق سے زیادہ رقوم مل رہی ہیں ۔ چاروں صوبے بہرحال نئے زمینی حقائق کی روشنی میں اپنی ذمہ داریاںپوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
شعبہ تعلیم پھر نظرانداز
یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائیگی کہ 2009-10ء کے اقتصادی سروے میں کہا گیا تھا کہ وفاق اور چاروں صوبوں نے طویل مشاورت کے بعد قومی تعلیمی پالیسی 2009کی منظوری دی ہے جس کے مطابق 2015ءتک جی ڈی پی کے تناسب سے تعلیم کی مد میں7فیصد رقوم مختص کی جائیں گی ۔ اسکے3برس بعد وزیر خزانہ اسحق ڈار کے دور میں2012-13ءکے اقتصادی سروے میں قومی تعلیمی پالیسی2009ءکے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے کہا گیاتھا کہ حکومت 2015ءتک تعلیم کی مد میں7فیصدمختص کرنے کی پابند ہے اور یہ کہ18ویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوگیا ہے اور اب صوبوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس فیصلے پر عمل کرینگے ۔ اسکے کچھ عرصے بعد یہ واضح ہوگیا تھا کہ وفاق اور چاروں صوبے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کیلئے ٹیکسوں کی چوری روکنے اور ہر قسم کی آمدنی پر موثر طورپر ٹیکس نافذ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں چنانچہ چاروں صوبے تعلیم کی مد میں وعدے کے مطابق رقوم مختص کرنے سے اجتناب کریں گے۔
یہ امر افسوسناک ہے کہ2015-16کے اقتصادی سروے میں حکومت پچھلے تمام وعدئوں سے منحرف ہوگئی اور اس سروے میں کہا گیا کہ حکومت کا عزم ہےکہ2018تک جی ڈی پی کے تناسب سے تعلیم کی مد میں4فیصد رقوم وفاق اور چاروں صوبے مختص کریں گے۔اس سے قبل حکومت کی منظور شدہ وژن 2025کی دستاویز میں بھی کہا گیاتھاکہ2018تک تعلیم کی مد میں جی ڈی پی کا4فیصد مختص کیاجائے گا۔
یہ بات بھی باعث تشویش ہے کہ 2017-18کے وفاقی اور چاروں صوبوں کے بجٹ میں تعلیم کی مد میںمجموعی طور پر جی ڈی پی کے تناسب سے4فیصد توکیا2.5فیصد رقوم بھی مختص نہیں کی گئیں حالانکہ مئی2017میں2016-17کے اقتصادی سروے میں 2018تک4فیصد رقوم تعلیم کی مد میںمختص کرنے کی بات کی گئی تھی۔ دراصل 2018۔2017میں تعلیم کی مد میںمجموعی طور پر جی ڈی پی کے تناسب سے تقریباً اتنی ہی رقوم مختص کی گئی ہیں جتنی 1980کی دہائی میں اوسطاً خرچ کی گئی تھیں۔اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ جن ملکوں نے تیز رفتار معاشی ترقی حاصل کی ہے ان میں یہ بات مشترک تھی کہ انہوں نے تعلیم،صحت، تحقیق وترقی اور ووکیشنل ٹریننگ کو خصوصی اہمیت دی تھی لیکن وطن عزیز میں کئی دہائیوں سے تعلیم کے شعبے کو اولیت دینے کے عزائم صرف سیاسی نعروں کی حد تک رہے ہیں۔ ایک اور المیہ یہ ہے کہ تعلیم کی مد میں جو رقوم مختص کی جاتی ہیںان کا درست استعمال بھی نہیں ہوتا رہا ہے ۔ چاروں صوبوں نے آئین کی18ویں ترمیم کی روح کو عملاً نظرانداز کیا ہے، چاروں صوبے ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت وفاق سے ملنے والی اضافی رقوم پر انحصار کرتے رہے ہیں اور انہوں نے زرعی شعبے اور غیر منقولہ جائیداد سیکٹر پر موثر طور پر ٹیکس نافذ کرنے سے عملاً اجتناب کیا ہےکیونکہ اس سے طاقتور طبقے ناخو ش ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ٹیکسوں کی وصولی استعداد کے مقابلے میں تقریباً چار ہزار ارب روپے سالانہ کم ہے جس کی ذمہ داری وفاق اور چاروں صوبوں پر عائد ہوتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور 2013میں کہاتھا کہ اگلے 5برسوں میں جی ڈی پی کے تناسب سے تعلیم کی مد میں5فیصد اور صحت کی مد میں2.6فیصد مختص کئے جائیں گے لیکن خیبر پختونخوا کے پا نچویں بجٹ میں اس کا نصف بھی مختص نہیں کیاگیا ۔ تحریک انصاف کے منشور میں جائیدادوں کے ڈی سی ریٹ کو مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانے کے عزم کا اظہار کیاگیا تھا لیکن یہ وعدہ بھی پورا نہیں ہوا۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ قوم کو چابکدستی سے پاناما لیکس کے معاملے میں الجھا دیاگیا ہے لیکن ملکی پاناماز کے معاملے پر کوئی بات کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے جبکہ بینکوں کے قرضوں کو غلط طریقوں سے معاف کرنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں گذشتہ 10برسوں سے زیر التوا ہے۔ اگر مندرجہ بالا گزارشات کی روشنی میں معاشی اصلاحات کرکے جی ڈی پی کے تناسب سے تعلیم کی مد میں7فیصد اور صحت کی مد میں4فیصد مختص کرکے ان رقوم کا دیا نتدارنہ استعمال یقینی نہیں بنایا جاتا تو تیز رفتار معاشی ترقی حاصل کرنے کے دعوے خودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔ چنانچہ یہ دعویٰ کرنا کہ اگلے5برسوں میں پاکستان ایک مضبوط معاشی قوت بن کر ابھرے گا بے معنی بات نظر آتی ہے ۔

 

.

تازہ ترین