• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوںبچّوں کی مشقّت کا عالمی دن منایا گیا۔ یہ دن جب بھی آتا ہے، مجھے کانپور کا قائم رضا شدّت سے یاد آتا ہے۔ اس کا قصہ ذرا دیر بعد۔ پہلے یہ کہہ کر اپنے کرب میں آپ کو شریک کرنا چاہتاہوں کہ ان بچّوں کی حالت دیکھی نہیں جاتی جو کبھی اینٹیں ڈھو رہے ہوتے ہیں اورکبھی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے بڑی بڑی مشینوں کی صفائی کررہے ہوتے ہیں۔میں اس سات آٹھ سال کی لڑکی کی تصویر نہیں بھول سکتا جو سگنل پر رکی ہوئی کار کے مالک کی خوشامد کر رہی ہے کہ وہ اس سے گلاب کے پھول خرید لے۔ مجھے اس آٹھ نو برس کے لڑکے کی تصویر رہ رہ کر یاد آتی ہے جو کسی مہنگے پرائیویٹ اسکول کی ٹوٹی ہوئی چار دیواری کے باہر کھڑا اسکول کے خوش لباس بچّوں کی نقل میں اکیلے اکیلے ورزش کر کے شاید جی ہی جی میں خوش ہورہا ہے۔ بات ایک بچّے کی ہورہی ہے لیکن دھیان میں پوری ایک نسل ہے جسے آنے والے زمانوں میں جینا ہے اور اس نسل کو وہ زمانہ کوئی اور نہیں، ہم ہی سونپیں گے۔ لاکھوں بچّے گلی کوچوں میں رُل رہے ہیں اور انہیں اسکول کی شکل دیکھنا بھی نصیب نہیں، چلئے ہم اس پر بھی صبرکرلیں لیکن ان پر مشقت کا بوجھ بھی ڈالا جائے اور وہ پتھر ڈھو کر یا خطر ناک مزدوری کرکے شام کوچند مڑے تڑے نوٹ نادار ماں باپ کے ہاتھ میں رکھیںجس کے بعد گھر کا چولہا جلے، یہ منظر بڑے ہی دکھ دیتا ہے۔ جو منظر ہر روز نگاہوں میں گھومنے لگے ، آنکھیں اس کو دیکھنے کی عادی ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ دل و دماغ کوئی اثر قبول کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اینٹوں کے بھٹّوں میں سوکھی لکڑیاں نہیں، نحیف اور لاغر بچّے جھونکے جاتے ہیں۔ایک ہم ہیں کہ سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ہمیں پتہ ہے کہ نازک نازک انگلیوں والے بچّے دن دن بھر قالین کے پھندے ڈالا کرتے ہیں ۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ قالین کے اون کے باریک ریشے ان بچّوں کی سانس میں جاکر ان کے پھیپھڑوں میں موت کے غالیچے بن رہے ہیں۔جب یہی بچّے بڑے ہو جائیں گے اور ان کی انگلیوں کی نفاست کو بڑھتی عمر کی فربہی کسی کام کا نہ رکھے گی تو قالینوں میں کاڑھے ہوئے نہ ان کے گل اور نہ ان کے بوٹے کبھی کہیں ان کی مہارت کی گواہی دیں گے۔یہ جن کھڈّیوں کے جنگل میں جاہل گئے تھے، ان سے ویسے ہی جاہل نکلیں گے۔ پھر نہ کوئی ملازمت ان پر ترس کھائے گی اور نہ کوئی روزگار ان کا ہاتھ تھامے گا۔
وقت بدل رہا ہے۔ آج جو معاشرے میں حرکت نظر آتی ہے، معاشیات کے طالب علم کی حیثیت سے میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ سب اُس موٹر سائیکل کا کمال اور اس شے کی دین ہے جسے لوگ سہولت کی خاطر ’بائیک‘ کہنے لگے ہیں۔شہروںہی میں نہیں، گاؤں دیہات میں بھی ان گنت موٹر سائیکلیں دوڑ رہی ہیں ۔ کس کا دھیان اس طرف گیا ہوگا کہ ان لاکھوں گاڑیوں کو رواں رکھنے کیلئے ہزاروں مستریوں اور کاریگروں نے جگہ جگہ اپنے کاروبار جمالئے ہوں گے اورکس نے غور سے دیکھا ہوگا کہ مستریوں نے دو دو ٹکے کے چھوکروں کو کام سکھا کر ان کی مشقت پر اپنی خوش حالی کی عمارت اٹھا ئی ہوگی۔ دن کے خاتمے پر اپنے کالک سے لتھڑے ہوئے چہرے لیکر یہ بچے جب گھر جاکر باپ کے ہاتھ پر وہ چند روپے رکھتے ہونگے تو باپ کیا فیصلہ کرتا ہوگا؟ یہی کہ علم گیا خاک میں اور تعلیم گئی چولہے میں، لڑکے کو اب تمام عمر مستری ہی بنا کر رکھنا ہے کہ بوڑھی ماں اب اس قابل تو ہوئی ہے کہ ابلی ہوئی دال میں بگھار لگانے لگی ہے۔میں مانتا ہوں کہ شہروں میں کچھ جی دار لوگوں نے کچرا چننے یا بیکار گھومنے والے بچّوں کو پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ انہوں نے حکومت کی حمایت کی پروا کئے بغیر جہاں بھی سایہ ملا، ان نادار بچّوں کے اسکول کھول لئے ہیں اور سب سے بڑا کمال یہ کیا ہے کہ دن کے خاتمے پر یہ لوگ ہر بچّے کے ہاتھ پر اتنی یا اس سے بھی زیادہ رقم ر کھ دیتے ہیں جتنا وہ کچرا بین کر کماتے ہیں۔اس سے بچّے بھی خوش ہیں، ان کے والدین بھی اور ان کا خدا بھی۔ یہ بچّے بنیادی تعلیم پاکر کسی قابل نکل جائیں گے تو معاشرے پر بوجھ نہیں بنیں گے اور یہ صدقہ جاریہ کیا عجب کہ پھرنسل در نسل چلے۔بنیادی تعلیم کی بات پر وہ نو جوان لڑکیاں یاد آئیں جو گاؤں دیہات میں کھلنے والے اسکولوں میں اس شان سے تعلیم پا گئی ہیں کہ ان کے خاندان میں کسی نے کبھی علم حاصل نہیں کیا تھا۔ ان گھرانوں میں علم کا فیض یوں نمودار ہوا کہ وہی لڑکی ٹیچر بن کر مہینے کے مہینے ماں باپ کو لاکر اپنی تنخواہ دینے لگی۔ خدا جانے کتنے عرصے بعد گھر کے نصیب جاگے اور بیٹی کے ہاتھوں اس چار دیواری میں خوش حالی نے قدم رکھا۔ مگر یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ لڑکی ترقی کرتی گئی۔ باپ کو زیادہ رقم دینے لگی مگر پھر یہ ہوا کہ سر میں چاندی جیسے بال نظر آنے لگے۔ علاقے کے نوجوان کھاتی کماتی لڑکی کو بیاہ کر لانے کے خواب دیکھنے لگے اور ماں باپ ہر رشتے اور ہر پیغام کو مسترد کرنے لگے۔ اس کہانی کے ہم نے جتنے بھی انجام دیکھے، دل دکھانے والے ہی دیکھے۔
ہاں تو بات کہاں سے شروع ہوکر کہاں جا پہنچی۔ یہ سنہ پچاسی کی بات ہے، میں پشاور سے کلکتے تک جانے والی جرنیلی سڑک پر ایک دستاویزی پروگرام کی تیاری کرتا ہوا یوپی کے شہر کانپور پہنچا۔ وہاں اپنے نانا حکیم محمد یوسف کا گھر دیکھنے گیا۔ گھر والوں نے بڑے پیار سے سارے ننھیالی رشتے داروں کے مکان دکھائے۔ آخر طے پایا کہ شہر کے قدیم قبرستان میں چل کر نانا جان کی قبر پر سورہ فاتحہ پڑھی جائے۔ وہاں گئے تو ان گنت قبریں دیکھ کر نانا کو تلاش کرنے کی خواہش نے وہیں چپ سادھ لی۔البتہ وہاں ان بزرگ خاتون سے ملاقات ہوگئی جو قبرستان کی دیکھ بھال کرتی تھیں او رشہر والے ان کو ہر مہینے اسّی روپے دے جاتے تھے۔ میں ان سے باتیں کر رہا تھا کہ اتنے میں ایک کمسن لڑکا وہاں آگیا۔ وہ بزرگ خاتون کا نواسا تھا۔ میں اس سے باتیں کرنے لگا۔ اس نے اپنا نام قائم رضابتایا۔ میں نے پوچھا کہ اسکول جاتے ہو؟ اس نے بڑے معصوم لہجے میں نہیں کہا۔ میں نے کہا ’’ پھر کیا کرتے ہو؟‘‘اپنے کانپوری لہجے میں بولا کہ اسکوٹر کا کام سیکھتے ہیں۔میں نے پوچھا کہ کسی مستری کے پاس؟ اس نے ہاں نہیں کہا۔ وہ بولا :جی۔ میں نے پوچھا’’کتنے پیسے دیتے ہیں؟‘‘ جواب ملا: ابھی نہیں دیتے۔ میں نے پوچھا :کب دیں گے؟ جواب ملا: جب دیں۔ میں نے پوچھا : کتنے دیں گے۔ کہنے لگا: جتنے دیں۔ میر ے پوچھنے پر بتایا کہ مستری ایک لڑکے کو تیس روپے دیتا ہے۔بچے کو علم نہ تھا کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا۔ میں نے قائم رضا کی نانی سے پوچھا کہ آگے چل کر کیا ہوگا؟وہ بولیں، اور یوں لگا جیسے ہندوستان کا پورا مسلم معاشرہ بولا۔’’مولا آئیں گے۔ ہم لوگ انتظار میں ہیں کس وقت آئیں مولا۔‘‘

 

.

تازہ ترین