• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آخر کار وزیر اعظم پاکستان نواز شریف سپریم کورٹ آ ف پاکستان کے حکم کے مطابق تشکیل دی جانے والی جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوگئے۔ تین گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی اس تفتیش میں وزیر اعظم سے کیا سوالات کئے گئے اس بارے میں ہم صرف اتنا ہی جان پائے ہیں جتنا ان سوالات کو لیک کرنے والے ہمیں بتانا چاہتے تھے۔اندر کیا ہوا کچھ با اثر اخبار نویسوں کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم تقریباََ " واک آئوٹ" کر کے باہر آئے ہیں۔ انہوں نے جے آئی ٹی کو کافی " زچ" کیا اور بار بار یہ مطالبہ کرتے رہے کہ مجھے بتائیں کہاں کرپشن کی ہے، کیا کک بیکس لئے ہیں۔میرے خلاف سرکاری خزانے سے کرپشن کا کوئی ثبوت جے آئی ٹی کے پاس ہے؟ ہر کاروباری خاندان کی مرضی ہے کہ وہ کہاں کا پیسہ کہاں پر خرچے۔ بعض تبصرہ نگاروں نے وزیر اعظم کے اس رویے کو سرکشی، نافرمانی ، گستاخی اور حکم عدولی کے مترادف قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جو باتیں کیں ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے اپنے دفاع میں کوئی نئی دستاویزات جمع نہیں کروائی گئیں بلکہ اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی دستاویزات کو ہی دوبارہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے ۔البتہ وزیر اعظم کی جانب سے پہلے سے تحریر شدہ تقریر پڑھتے ہوئے ایک بات ضروردہرائی گئی کہ ہم پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے، پانامہ کیس میں بھی جو سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ ہمارے خاندا نی ، ذاتی کاروبار او ر سرمائے سے متعلق ہیں۔ ان پر یا ان کے خاندان پر سرکاری خزانے کو لوٹنے کا کوئی الزام نہیں ہے۔
اگر وزیراعظم کی جانب سے کی جانے والی گفتگو کے متن کو دیکھا جائے تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت شاید اب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیںکہ انہیں بہرحال جے آئی ٹی سے وہ" انصاف" نہیں مل سکے گا جس کی انہیں توقع تھی ۔غالباََ اسی لئے وزیر اعظم نے سرکار ی خزانے کی لوٹ مار اورــ کاروباری" دانشمندی" کے درمیان فرق پر بہت زور دیا۔ وزیر اعظم دراصل اپنے ووٹر کو اس بات کا یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ان پر لگائے جانے والے الزامات کی نوعیت دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنمائوںپر لگائے جانے والے الزامات سے مختلف ہے اور وہ اس تاثر کا بھی ازالہ کرنا چاہتے ہیں کہ ان پر اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر لگنے والے الزامات ایک جیسے ہیں۔ وزیر اعظم نے اسی گفتگو کے دوران کٹھ پتلیوں کا بھی ذکر کیاجو ایک بہت اہم نکتہ ہے۔ اس سے قبل بھی مسلم لیگ ن کے مختلف رہنمائوں کی جانب سے تواتر کے ساتھ ایسے خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ کچھ خفیہ طاقتیں وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔جے آئی ٹی کی تفتیش کے دوران سیکورٹی کیمروں سے وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی لی گئی تصویر کے سوشل میڈیا پر لیک ہونے کے بعد بھی ن لیگ کے رہنما ئوں نے نادیدہ قوتوں کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔اس سب سے ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے حلقوں میں اب یہ بات تقریباََ تسلیم کر لی گئی ہے کہ چونکہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا ہے اس لئے پانامہ کیس میں بننے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ ان کے خلاف آنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اسی لئے نہ صرف وزیر اعظم نے کھل کر نادیدہ قوتوں کے کردار کے بارے میں بات کی بلکہ اس بات کی بھی یاد دہانی کروائی کہ ایک سیاستدان کے لئے سب سے بڑی عدالت عوام کی عدالت ہوتی ہے۔ چونکہ یہ گفتگو پہلے سے تحریر شدہ تھی اس سے اس بات کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نواز شریف اور ان کے رفقاء اب ذہنی طور پر ایک نئے الیکشن کے لئے تیار ہیں اور اگر سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں مجرم قرار دے دیا جاتا ہے تو پھر مسلم لیگ ن عوام کی عدالت سے رجوع کرنے میں دیر نہیں لگائے گی ۔جماعت کی جانب سے بارہا اس بات کا تذکرہ کیا جاچکا ہے کہ اگرچہ وزیراعظم کے صاحبزادوں پر پاکستانی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا پھر بھی وہ اس کیس کا حصہ بننے پر راضی ہوئے کیونکہ وہ شفافیت کے عمل سے گزرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ وزیر اعظم کے جے آئی ٹی میں پیش ہونے کو بھی لیگی حلقے ایک اہم تاریخی موڑ قرار دے رہے ہیں۔ جب وزیر اعظم صرف قانون کی بالادستی کو قائم رکھنے کی خاطر جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوئے ، اس سب کا مقصد دراصل عوام تک اس بات کو پہنچانا ہے کہ مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت نے سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی سے تمام تر تعاون کیا لیکن پھر بھی خفیہ قوتوں نے سازش کے تحت انہیں مجرم قرار دلوا دیا۔ مسلم لیگ ن کے سیاسی مخالفین ا گرچہ اس بات سے ہرچند متفق نظر نہیں آتے اورحزب اختلاف کی بہت سی جماعتیں وقتاََ فوقتاََمسلم لیگ ن پر الزام لگاتی رہی ہیں کہ جماعت کے قائدین اپنے جرائم کی سزا بھگتنے کی بجائے سیاسی شہید بننے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس کیس کے حوالے سے قطری شہزادہ سے پوچھ گچھ کا معاملہ فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم ہائوس میں یہ بات سرگوشیوں میں کی جا رہی ہے کہ قطری شہزادہ اپنے موقف پر قائم رہے گا لیکن وہ کاروبار کی تفصیلات ظاہر نہیں کرے گا تاکہ مزید سوالات جنم نہ لے سکیں۔
ٓپانامہ کیس ایک ایسا مقدمہ بنتا جا رہا ہے جس میں ہار یا جیت کسی کی بھی ہو مستقبل قریب میں اس کی وجہ سے پاکستانی سیاست کا درجہ حرارت مزید بڑھنے والا ہے۔ چونکہ اب ن لیگ کا خیال ہے کہ جے آئی ٹی کی جانبدارانہ تفتیش کے باعث اسے سیاسی نقصان ہو کر رہے گا اسی لئے اب جماعت کے رہنمائوں کی جانب سے جارحانہ روئیے کے اظہار میں صرف اضافہ ہی ہو گا۔ پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس موقع سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔ ایسے میں جب دونوں اطراف سے سخت جملوں اور الفاظ کا تبادلہ کیا جائے گا تو اس کا اثر محلے اور گلی کی سطح پر موجود سپوٹرز اور ووٹرز پر بھی ہو گا۔ رہنمائوں کی جانب سے شروع کی گئی تلخیاں اگر گلی محلے کی سطح پر ختم کی جانے لگیں تو کافی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن چونکہ مسلم لیگ ن اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اس لئے اس سے یہ توقع کرنا بے سود ہے کہ اس کی قیادت اپنے رویے میں تبدیلی کرے گی ۔اسی طرح چونکہ پی ٹی آئی کے لئے اقتدار کی را ہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ن لیگ ہے اس لئے وہاں سے بھی کچھ کم جارحیت کی امید نہیں کی جا سکتی۔
انجام جو بھی ہو، آصف زرداری کو برسوں جیل میں رکھنے اور نواز شریف کی جے آئی ٹی میں پیشی ایک بات ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کے وہ تمام ادارے شرمناک حد تک اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہے ہیں، جن کا کام منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، غیر قانونی ذرائع سے دولت کے حصول کا سد باب کرنا اور کرپٹ افراد کے خلاف مکمل تحقیقات کر کے ایک مضبوط استغاثہ تیار کرنا تھا ۔

 

.

تازہ ترین