• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کو تاریخی قراردیتے ہوئے ’’مورخین ‘‘ قوالوں کی طرح ہارمونیم کی آخری سپتک یعنی اونچے سُروں سے بول اٹھا رہے ہیں۔ حکومت کے حاجی بگویم کہہ رہے ہیں کہ منتخب وزیر اعظم کی تین نسلوں نے حساب دے دیا۔ دوسری طرف مُلابگو دوسے چار ہاتھ آگے نکل کر ’’جانوکپتی ‘‘ بھی کہہ رہے ہیں اور یہ بھی فرمارہے ہیں کہ وزیر اعظم کے بیٹے پاکستان کے شہری نہیں اگر وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہ بھی ہوتے تو کوئی کیاکرلیتا؟ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم اگر جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہ ہوتے تو یہ قانونی خودکشی ہوتی لہذا یہ کہنا کہ انہوں نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوکراس ملک کے آئین اور قانون پر کوئی احسان کیاہے صریحاََ مبالغہ آرائی ہے۔ایمانداری کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے اور انہوں نے کمردرد کا کوئی ’’میڈیکل سرٹیفکیٹ‘‘ پیش نہیں کیا۔ہماری سیاست اور اقتدار کے اصولوں کا قبلہ اس دن درست ہوگا جب اس نظام میں کوئی مقدس گائے نہیں ہوگی اور نہ ہی یہ سمجھا جاسکے گا کہ ’’ہنوز دبئی دوراست ‘‘۔
JITمیں 3گھنٹے سوال وجواب کے بعدوزیر اعظم نے وہیں جوڈیشل اکیڈمی کے احاطہ میں پہلے سے لکھا ہوا اپنا خطاب پڑھا ۔وزیر اعظم نے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش تو کیالیکن پیشی کے بعد دیکھاگیاکہ وہ غصے،پریشانی اور ناراضی کے عالم میں تھے۔انہوں نے کہاکہ کٹھ پتلی تماشہ اب ختم ہوگیا، تاریخ کا پہیہ الٹا نہیں چلنے دیں گے، عوام کے فیصلے روندکر مخصوص ایجنڈے چلانے والی فیکٹریاں بند نہ ہوئیںتو آئین اور جمہوریت ہی نہیں ملکی سلامتی بھی خطرے میں پڑجائے گی۔ وزیر اعظم نے کہاکہ پاکستان کے عوام یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ میرے خلاف قومی خزانہ لوٹنے کا الزام نہیں ہے ، یہ بے رحمانہ احتساب ہمارے ذاتی اور خاندانی کاروبار کے حوالے سے کیاجارہاہے۔یہ احتساب پیپلز پارٹی نے بھی کیااور جنرل مشرف نے بھی کیا۔جنرل مشرف کو تومیرے خلاف جب کرپشن کا کوئی اسکینڈل نہ ملاتو پھر مجھ پر طیارہ ہائی جیکنگ کا جھوٹا مقدمہ قائم کیاگیا۔ عمران خان نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ نوازشریف یہ تاثردے رہے ہیںکہ جیسے ان کے خلاف سا زش کی جارہی ہے ۔اور یہ سازش فوج اور عدلیہ کررہے ہیں۔غالب نے کہاتھاکہ
ادائے ِ خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے
جب بھی کبھی ایسی نکتہ دانی کی جاتی ہے تو5جولائی 1977یاد آجاتاہے جب بھٹو کا تختہ الٹ کرجنرل ضیاالحق نے مارشل لانافذ کیاتھا۔اس گھنائونی سازش کے پونے دوسال بعد 4اپریل 1979کو منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی حکم پر پھانسی دے دی گئی ۔بظاہر یہ عدالتی فیصلہ تھا لیکن تاریخ کے کٹہرے میں یہ ثابت ہواکہ یہ جنرل ضیا الحق اور جسٹس مولوی مشتاق کا گٹھ جوڑ تھا ۔ یہی وہ گھنائونا ماضی ہے جسے نہ دہرانے کی بات کی جاتی ہے۔لیکن ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ ضیاالحق نے منتخب وزیر اعظم کو پھانسی پرلٹکانے کے بعد اپنے زیر سایہ مجلس شوریٰ بنائی۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم تھا جس میں وہ سیاسی اورمذہبی اکابرین اکٹھے کرلئے گئے جو ضیاالحق کی ظالمانہ آمریت کو اخلاقی اور’’ سیاسی مردانہ طاقت‘‘ مہیا کررہے تھے۔ ہم سب کو یاد ہے کہ مجلس شوریٰ کے چیئرمین خواجہ محمد صفدر تھے جو خواجہ محمد آصف کے والد ِگرامی تھے۔خواجہ آصف جمہوریت کا اینگری ینگ مین بنتے ہوئے جب اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکرڈکٹیٹروںکو للکارتے ہیںتو مجھے جنرل ضیا الحق اور ان کے رفقائے کار یاد آجاتے ہیں۔یہ وہی عظیم لوگ تھے جن کی حمایت اور تعاون سے جنرل ضیاالحق اس ملک کے مقدر میں اندھیرے بھرتے رہے۔ ہیروئن کی لعنت ، کلاشنکوف جیسی موت اور دہشت گردی کے عذاب کے ساتھ ساتھ کرپشن کی MATRIX(رحم مادر یا سانچہ)انہی کی دین ہے ۔یہ وہی سیاسی سانچہ ہے جس کے بطن سے کرپشن کے ٹڈی دل لشکر پیدا ہوئے اور وطن عزیز پر چھاگئے ۔وطن عزیز کے غریب عوام کے مقدر کے مقدمے کی سمری یہ ہے کہ ریاست نے عوام کی اصل قیادت کو راستے سے ہٹا کر ایک ایسی ریڈی میڈ حکمران ایلیٹ متعارف کرائی جو روبوٹ کی طرح ریموٹ کنٹرول تھی۔ یہ کنٹرولڈ ایلیٹ آغازمیں تو ان کی تابع فرمان رہی اورپھر بوتل کے جن کی طرح باہر نکل آئی۔اس ایلیٹ نے اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دکھانا شروع کردیں اور اپنی بقا کی اس لڑائی کو جمہوریت کے خلاف ریشہ دوانیاں قراردیا گیا۔اسلامی جمہوریہ کی سیاست پر چھائی ہوئی گھٹائوں کو دیکھ کر اقبالؒ کا فرمان یاد آجاتاہے کہ ۔۔۔بتوں سے تجھ کو امیدیں ،خدا سے نامیدی۔۔۔مجھے بتاتو سہی اور کافری کیاہے !۔۔۔فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں۔۔خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے۔۔۔ بھٹو کا عدالتی قتل ایک ایسا قومی سانحہ تھا جس کے اثرات ختم ہونے کو نہیں آرہے۔
11جون بروز اتوار لاہور بلاول ہائوس میں بلاول بھٹو سے ہاتھ ملایا تومجھے یوں محسوس ہواجیسے میرا ہاتھ ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں آگیاہو۔بلاول کاہاتھ بھی اتنا ہی نرم اورگرم تھا جیسے بھٹو صاحب کا ہاتھ ہو۔یہ نومبر 1970کی بات ہے جب بھٹو صاحب ہمارے شہرگجرانوالہ آئے تھے اور میں نے ان سے ہاتھ ملایاتھا ۔ آج اس واقعہ کو دہائیاں گزر گئیں لیکن میں بھٹو کے ہاتھ کا لمس آج بھی محسوس کرتاہوں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں صرف چار سال کا تھا ۔مجھے آج بھی یاد ہے ہمارے آبائی گھر گجرانوالہ پونڈہ والہ چوک سے کچھ فاصلے پر بلال مسجدکے سامنے پیپلز پارٹی کے جیالے امین چائے والے کا کھوکھاہواکرتاتھا۔امین چائے والا نے اپنے چھوٹے سے کھوکھے پر پیپلزپارٹی کے جھنڈے لہرا کر اسے پارٹی ’’دفتر‘‘ بنا رکھاتھا۔ کونسل مسلم لیگ کے سپوٹرز جو پہلوان تھے امین نے انہیں یہ چیلنج دے رکھا تھاکہ بھٹو صاحب اس کے کھوکھے پر آئیں گے بلکہ اس کے ہاتھوں سے بنی چائے بھی پئیں گے۔ پورے مغربی پاکستان کی طرح گجرانوالہ بھی بھٹو کا گڑھ تھا پیپلز پارٹی کے امیدوار میاں منظور الحسن اور ان کے سامنے کونسل مسلم لیگ کے امیدوار عزیز ذوالفقار الیکشن لڑرہے تھے۔نون لیگ کے وفاقی وزیر خرم دستگیر تو شاید اس وقت تک پیدا بھی نہیںہوئے تھے البتہ ان کے والد گرامی غلام دستگیر خان ایم پی اے کا الیکشن لڑرہے تھے جنہیں اسماعیل ضیاء نے ہرایاتھا۔بلاول بھٹو سے ملاقات کے وقت چوہدری منظور، عثمان ملک ،سجاد انور ،سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور قمر زمان کائرہ بھی موجود تھے۔ کائرہ صاحب نے کہاکہ طاہر سرورمیربھٹوصاحب سے بھی ملاقات کرچکے ہیں ۔یہ سنتے ہوئے بلاول نے مسکراتے ہوئے کہاکہ! میر صاحب اتنے سینئردکھائی تونہیں دیتے۔کائرہ صاحب بولے !یہ بھوک ہڑتالوں اور کالے ( خضاب) کاکمال ہے ۔یہ سنتے ہی ایک قہقہہ گونجا۔بلاول کو دیکھتے ہوئے میں دہائیاں پیچھے چلاگیا۔بھٹوصاحب سے ہاتھ ملانے کا واقعہ اور بلاول سے ملاقات کی تفصیل آئندہ کالم میں ملاحظہ کیجئے گا۔

 

.

تازہ ترین