• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدتوں سے ،ہمارے خالی سروں کو کھول کر ، ہماری کھوپڑیوں میں ٹھونک ٹھونک کر ایک بات بٹھا دی گئی ہے کہ جمہوریت ہی کرپشن کا منبع ہے۔ سب سیاستدان ہی لٹیرے ہیں۔سارے ہی چور اور ڈکیت ہیں۔ انکی سیاست صرف قومی خزانے کو لوٹنے کے لئے ہے۔ رشتہ داروں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کر نے کے لئے ہے۔ یہ قو م کے غدار بھی ہیں اور مذہب کے گناہ گار بھی ۔ نہ انکو عوام سے کوئی دلچسپی ہے نہ ملک کا کوئی خیال ۔ نہ ووٹ کی حرمت کا کوئی پاس ہے نہ ایوانوں کی تقدیس کا کوئی خیال۔ نہ انکے دل میں انسانوں سے ہمدردی ہے نہ انکو عوام کی کسمپرسی کا کوئی اندازہ ۔ یہ سب جاہل لوگ ہیں۔ ان کی سیاست کا مقصد صرف لوٹ مارہے۔ جمہوریت انکی ڈھال ہے جسکی آڑ میں یہ قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ اس کند ذہن قوم کو بار بار یہ سبق پڑھایا گیا کہ یہ جلاد صفت لوگ ہیں۔ اس عوام کو بار بار یہ رٹایا گیا کہ سیاست دان معاشرے کا خود غرض ترین طبقہ ہیں۔ ہمیں بارہا یاد کروایا گیا کہ دھوکے باز لوگ اور مجرم ہیں۔ یہ جمہوریت کا نعرہ لگا کر ، ووٹ کے کرتب دکھا کر ، الیکشن کا میلہ لگا کر، عوام کو لوٹتے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ نواز شریف نے خزانے کا برا حال کر دیا ۔ دساور میں دولت کے انبار لگا دیئے ۔ کرپشن کا بازار گرم کر دیا۔ لندن میں چار فلیٹس خرید لئے ۔پاناما میں بھی نام آگیا۔ ہمیں سکھایا گیا کہ آصف علی زرداری اس دنیا کے کرپٹ ترین آدمی ہیں۔پہلے ٹین پرسنٹ تھے صدر بن کر ہنڈرڈ پرسنٹ ہو گئے۔ ہر سودے میں اپنا حصہ رکھتے ہیں۔کمیشن کی خاطر سب کچھ بیچ سکتے ہیں۔۔ پارٹی کے سب عہدے کرپشن کے ایجنٹوں کے حوالے ہیں۔ ہمیں رٹایا گیا کہ عمران خان وہ نہیں ہے جو دکھتا ہے۔ صدقے ، خیرات کے پیسے سے پارٹی چلاتا ہے۔اسپتال کے چندے میں سے پیسے بناتا ہے۔ بنی گالہ کا فارم ہائوس فراڈ سے خریدا گیا۔ فارن فنڈنگ کی وجہ سے اس کے اکائونٹ داغدار ہیں۔ یہ چیرٹی کے نام پر لوگوں سے پیسے بٹورتا ہے۔ یہ دھوکے باز اور فراڈ ہے۔یہ سبق ہمیں اتنی بار سنا یا گیا کہ اب ہمارے کند ذہنوں پر نقش ہو گیا ہے۔ اب نواز شریف کے حامیوں کے پاس عمران خان کے خلاف ثبوت ہیں۔ عمران خان کے حامی میاں صاحب سے رسیدوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان دونوں کو جب موقع ملتا ہے تو زرداری اور پیپلز پارٹی کو توم ڈالتے ہیں۔ ہر ایک کے دور حکومت میں مخالف کے خلاف فائلیں بنتی ہیں، ثبوت اکھٹے کئے جاتے ہیں ، ایک دوسرے کی موقع بہ موقع تذلیل کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے سے تلاشی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
ہماری کیفیت تانگے کے اس گھوڑے کی سی ہو گئی ہے جس کی آنکھوںپر کھوپے چڑھے ہوتے ہیں اور ایک سمت کے سوا اس کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔اس کی نظر محدود اور اس کا زاویہ نظر تنگ کر دیا جاتاہے۔اس کی چال کا رخ صرف ایک سمت رہتا ہے۔ باقی جہان میں کیا ہو رہا ہے اس کی اسے قطعا خبر نہیں ہوتی۔ وہ اپنی ہی دھن میں سرپٹ دوڑتا جاتا ہے۔ اس کو صرف اپنی کمر پر پڑنے والے چابک کی سفاکی کا خوف ہوتا ہے۔ یہ خوف اس کو رکنے نہیں دیتا ، اس کو کسی اور سمت دیکھنے نہیں دیتا۔ اس کی نظر کا دائرہ وسیع نہیں ہونے دیتا۔
اہل پاکستان کے لئے یہ معلومات نئی نہیں ہو گی کہ اس ملک میں جتنا عرصہ جمہوریت رہی ہے قریباََ اتنا ہی عرصہ ہم نے ڈکٹیٹروں کو حاکم رکھا ہے۔یہ ڈکٹیٹر اس ملک پر تین دہائیوں سے زیادہ حاکم بھی رہے ہیں۔ ان ہی کی نگری میں ہم سب پلے ،بڑھے اور جوان ہوئے ہیں۔ اس سماج کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے کسی کی یہ جرات نہیں ہوئی ہے کہ ان ڈکٹیٹروں کی تین دہائیوں کا احتساب کرے؟ آئین کو پامال کرنے کا جواب طلب کرے؟ عوام کے مینڈیٹ کو پائوں تلے روندنے پر سوال کرے؟سوچئے ،کیا کسی نے ان سے کرپشن کے بارے میں پوچھنے کی جرات کی ہے؟ کیاکسی نے ان سے تلاشی مانگی ہے؟ کیاکسی نے ان سے رسیدیں دکھانے کی فرمائش کی ؟ کیاکسی کو جے آئی ٹی میں طلب کیا گیا ؟ کیاکسی کے بھائی پر کرپشن کا الزام لگا ہے؟ کیاکسی کے فلیٹ پر کسی کو انگلی اٹھانے کی جرات ہوئی ؟کیاکسی کو ٹین پر سنٹ کہا گیا؟ کیاکسی پر صدقے خیرات میں بے ایمانی کرنے کا الزام لگا؟کیا کسی کی پیشیاں ہوئیں؟کیاکسی کے بینک اکائونٹ چیک کئے گئے؟ کیاکسی کے خلاف میڈیا میں کمپین چلی؟
نہیں ایسا نہیں ہوا ۔ کسی کی اتنی جرات نہیں ہوئی۔ کسی کی آنکھوں سے کھوپا نہیں ہٹا۔ کسی کو اتنی وسعت النظری بخشی نہیںگئی۔اگر آپ یہ دلیل دیں کہ ان ادوار میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جس کا حساب لیا جائے تو سوال صرف اتنا ہے کہ تیس سال سے زیادہ عرصہ قوموں کی زندگی میں بہت ہوتا ہے۔ ان تین بے مثال دہائیاں کے باوجود اس ملک نے ترقی کیوں نہیںکی؟ یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع کیوں نہیں ہوئیں؟ یہاں بجلی کے کارخانے کیوں نہیں لگے؟ سارے ملک میں سڑکوں کا جال کیوں نہیں بچھا؟ ہم کوریا اور چین کی طرح ترقی یافتہ کیوں نہیں ہو ئے؟یہاں سے غربت ختم کیوں نہیں ہو ئی؟ہزاروں ڈیم کیوں نہیں بن گئے؟ یہاں تعلیم عام کیوں نہیں ہوگئی؟ یہاں صحت کی سہولتیں سب کو فراہم کیوں نہیں ہو ئیں؟یہاں سے جرائم کیوں ختم نہیں ہوئے؟ دہشت گردی کا قلع قمع کیوں نہیں ہوا؟سکھ ، چین اور امن قائم کیوں نہیں ہوا؟
اس ملک کے آئین کو توڑنا ، دستور کو پامال کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔یہ جرم سزا کے لئے کافی ہے ۔ جمہوریت کو آہنی قدموں تلے روندنا بہت بڑا جرم ہے۔ عوام کے ووٹوں کی توہین بہت سنگین جرم ہے۔ لیکن بد قستی سے یہ واحد جرم نہیں ہے۔ مقامات آہ فغاں اور بھی ہیں۔لیکن اس طرف ہماری نظر نہیں جاتی ۔ہم ایک چابک کے خوف سے ادھر ادھر دیکھے بغیر سرپٹ بھاگتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہمیشہ جمہوریت ، آمریت کے خوف میںجنم لیتی ہے۔لیکن یاد رکھیئے ۔ ملکوں کی تقدیر خوف کے تابع ہو کر نہیں بدلی جاسکتی۔ہمارےبعض دانشور جب جوہڑ سے پانی پیتے انسان کی تصویر پر روتے ہیں ، جب انکواسپتال میں دوائی کے بغیر مرنے والی عورت کی موت پر رونا آتا ہے جب ان کو کیچڑ میں کھیلتے ہوئے بچوں کے مقدر کی الم ناک یاد ستاتی ہے تو ان سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ یہ ملک ایسے ہی چل رہا ہے۔ جمہوری دور میں آپ کو الم کی یہ تصاویر نظر آجاتی ہیں۔ آمریت کے دور میں آپ کی سماعتوں پر پردہ کیوں پڑ جاتا ہے ،؟یہ منظر تب کیوں نہیں دکھتے؟یہ آنسو تب کیوں نہیں بہتے؟
جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے بعد وزیراعظم کے خطاب میں سب سے حوصلہ افزا بات یہی تھی کہ اب سچ پردوں کے پیچھے نہیں چھپے گا۔ اب کٹھ پتلیوں کا کھیل نہیں چلے گااور اب ہم تاریخ کا پہیہ پیچھے موڑنے نہیں دیں گے۔ یہ دعویٰ اس ملک میں بہت بڑا دعویٰ ہے اور کٹھ پتلیوں کے اس دیس میں ہم سب بہت ہی بے بس ہیں۔ کیونکہ ہمارے خالی سروں کو کھول کر ، ہماری کھوپڑیوں میں ٹھونک ٹھونک کر ایک بات بٹھا دی گئی ہے کہ جمہوریت ہی کرپشن کا منبع ہے۔ سب سیاست دان ہی لٹیرے ہیں۔

 

.

تازہ ترین