• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کمال کرنے کی جستجو زندگی میں جہاں آگے بڑھنے کیلئے ایک انتہائی اہم تحرک اور ترغیب کی حیثیت رکھتی ہے، وہیں اسکی زیادتی زندگی کو جہنم بھی بنا دیتی ہے۔ علم نفسیات کی جدید تحقیق کے مطابق بہت سے نفسیاتی عارضوں کے پیچھے کمال پرستی (perfectionism) کی عادت کارفرما پائی جاتی ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ بعض اوقات انسان خود کو کمال پرستی کے جنون میں مبتلا پاتا ہے اور اپنی زندگی کو سو فیصد کامل اور بے عیب بنانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ دوسری طرف عملی زندگی جو لاکھوں مظاہر جن میں سے اکثر ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں، کے درمیان ایک نازک سے توازن کا نتیجہ ہونے کی وجہ سے غیر کامل اور عیب دار ہوتی ہے۔ بعض دفعہ انسان پر ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ وہ کمال کے جنون اور زندگی کی حقیقت کے دو پاٹوں کے درمیان پائے جانے والے تفاوت سے سمجھوتہ کرنے سے خود کو قاصر پاتا ہے، نتیجہ رنگ رنگ کی نفسیاتی الجھنوں کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ کارل مارکس نے اسی مظہر کو ایک دوسرے زاویے سے بیان کیا جب اس نے معاشرے کے ایک طبقے کے بارے میں لکھا کہ اسکے پائوں کیچڑ میں ہوتے ہیں لیکن اسکی نظریں آسمان پر جمی ہوتی ہیں۔ اسی طرح مذہبی بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے رجحان کو بھی اس نفسیاتی تھیوری کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ کچھ مذہبی تحریکیں جو ہر مذہب میں پائی جاتی ہیں، مذہبی زندگی میں کاملیت کے جنون میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ وہ مذہبی بنیادوں پرحد سے زیادہ زور دینا شروع کر دیتی ہیں جبکہ معاشرہ جس میں مذہب نے پروان چڑھنا ہے، ثواب اور گناہ، اچھائی اور برائی، نیکی اور بدی کے مجموعے سے عبارت ہوتا ہے۔ جب ان تحریکوں کا فوکس عملی زندگی میں اچھائی اور برائی کے درمیان ایک صحتمند توازن پیدا کرنے کی بجائے صرف اور صرف اچھائی پر زور دینے کی طرف منتقل ہونا شروع ہوتا ہے تو پھر جلد یا بدیر یہ معاشرے سے کٹ جاتی ہیں اور انتہا پسندی کی دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہو جاتی ہیں۔ یہی مظہر من و عن سیاسی، معاشی، اور سیاسی تحریکوں کے پیچھے بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔
آجکل ہر سُو جے آئی ٹی کا شور ہے۔ یہ شور اتنا بے جا بھی نہیں ہے کیونکہ اس جے آئی ٹی کی کامیابی اور ناکامی کی کھونٹی پر ہماری جمہوری تحریک کی کامیابی یا ناکامی کے امکانات لٹکے ہوئے ہیں۔ اگر تو یہ جے آئی ٹی اپنا فرض نبھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پاکستان کی جمہوری تحریک کو مہمیز ملے گی۔ اسی لیے میری رائے ہے کہ تمام جمہوریت پسند حلقوں کو اس جے آئی ٹی کی کامیابی کیلئے اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔ مسلم لیگ ن اور چند حلقوں کی طرف سے جب جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کی کوششیں نظر آتی ہیں تو اسکو نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی سیاسی مظہر میں ایسے لوگ جنکے مفادات کسی خاص نتیجہ کے برآمد ہونے سے جڑے ہوتے ہیں انکی طرف سے اس سمت میں کوششیں سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ لیکن جب پیشہ ورانہ ساکھ رکھنے والے، ماضی میں قربانیاں دینے والے اور جمہوری تحریک کا ساتھ دینے والے حلقوں کی طرف سے جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کی کوشش نظر آتی ہے تو افسوس ہوتا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کسی آمر یا سیاسی مخالف کی بنائی ہوئی جی آئی ٹی نہیں ہے بلکہ یہ آئین اور قانون کے تحت سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں بنائی گئی جے آئی ٹی ہے۔ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ دنیا بھر میں اپنی کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے جانی جاتی ہے اور اس بات کو جاننے کیلئے کسی سپریم کورٹ کے فیصلے اور جے آئی ٹی کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ نے کھربوں روپے لوٹ کر بیرون ملک چھپائے ہوئے ہیں۔ اب اس تناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اچھی ساکھ رکھنے والے دوستوں کی طرف سے جے آئی ٹی پر پل پڑنے کے عمل کو کمال پرستی کے رویے سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ایسے دوست راتوں رات ایک مثالی جے آئی ٹی دیکھنا چاہتے ہیں جو خیالوں اور کتابوں میں تو مل سکتی ہے لیکن پاکستان کے مخصوص سیاسی اور انتظامی ماحول میں اسکی عملی تعبیر ممکن نہیں۔ واٹس ایپ کالوں کو اتنا بڑاا سکینڈل بنانے کی کوشش کی گئی حالانکہ ہم میں سے ہر کوئی بساط بھرکوشش کرتا ہے کہ کسی طرح اپنی سرکاری و ذاتی مصروفیات کو نظر نہ آنے والے کانوں سے محفوظ بنائے۔ اسی طرح تصویر کے لیک ہونے کو اتنا اچھالا جا رہا ہے کہ خدا کی پناہ! حالانکہ ہمارے ہاں ایک نا خوشگوار تاریخ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والی سوچ اور رویے ہر جگہ ہر اچھی کوشش کو کسی نہ کسی سازش کی شکل دینے میں کبھی مایوس نہیں کرتے۔ اسی طرح جے آئی ٹی کی طرف سے جس طرح میڈیا اور سیاست سے تعلق رکھنے والے افراد کی مانیٹرنگ کی تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش کی گئیں، ان سے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس غربت کی ماری قوم کے خون پسینے سے مہیا کئے گئے وسائل کو منفی مقاصد کیلئے استعمال کرنے والے حلقے باز آنے والے نہیں۔ سزا اور جوابدہی کے خوف سے آزادی بھی کیسی ناپسندیدہ آزادی ہے۔ لیکن ان سب مشکلات کے باوجود، ہر جمہوریت پسند کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کی کوششوں کی حمایت کرے۔ راتوں رات نہ جے آئی ٹی کامل اور بے عیب ہو سکتی ہے اور نہ ہی ہمارا عدالتی نظام۔ بہتر مستقبل کی طرف ہمارے سفر کو چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کی ضرورت ہے تاکہ آئینی اور قانون طور پر کام کرنے والے اداروں اور کوششوں کی حوصلہ افزائی ہو اور آئین و قانون کا مذاق اڑانے والی سوچ اور رویے اپنی سازشوں میں ناکام ہوں۔ شاید یہی وہ واحد راستہ ہے جسکے ذریعے آئین اور قانون کے لمبے ہاتھ ایک دن اپنا مذاق اڑانے والوں کی گرفت کرنے کے قابل ہوں گے۔ اچھی نیت اور اچھی ساکھ رکھنے والے دوستوں کا کمال پرستی کا جنون کہیں ملک و قوم کو مزید غیرجمہوری الجھنوں اور عارضوں کا شکار نہ بنا دے۔

 

.

تازہ ترین