• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکمراں خاندان کے خلاف پاناما کیس میں سپریم کورٹ کی تشکیل دی ہوئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی کی سی کیفیت جس میںہر گزرتے دن اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور جس کا بھرپور اظہار گزشتہ روز اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے حکومتی موقف اور ایوان وزیر اعظم کے ترجمان کی پریس کانفرنس کے ذریعے ہوا، اپنے سنگین مضمرات کے سبب ملک کے ہر باشعور شہری کیلئے سخت تشویشناک اور پریشان کن ہے۔ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل سے پہلے ہی اس میں دو اداروں سے دو مخصوص افراد کی نامزدگی کیلئے عام طریق کار کے برعکس واٹس ایپ پر ہدایت کا دیا جانا اور پھر متعلقہ عمارت کے اندر تفتیش کے منتظر حسین نواز کی تصویر کا لیک ہونا ایسے معاملات تھے جن کی بناء پر جے آئی ٹی شکوک و شبہات کی زد میں آئی حتیٰ کہ وفاقی حکومت کے سخت ناقد اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بیرسٹر اعتزاز احسن تک نے تحقیقاتی ٹیم میں مخصوص افراد کے تقرر کیلئے کی جانے والی کارروائی کو غلط قرار دیا اور کہا کہ جے آئی ٹی کے ارکان کے تقرر میں یہ طریق کار اختیار کیا گیا ہے تو وزیر اعظم کی جانب سے مقدمے میں انصاف نہ ملنے کی شکایت کا جواز ہوگا۔جے آئی ٹی نے ان شکایات کے جواب میں چار دن پہلے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی اپنی رپورٹ میں حکومت کیخلاف سنگین الزامات لگاتے ہوئے شکوہ کیا کہ حکومتی ادارے تحقیقات میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں اور ریکارڈ تبدیل کیا جارہا ہے۔اٹارنی جنرل نے ان الزامات کے جواب میں جمعہ کی صبح عدالت عظمیٰ کے متعلقہ بنچ میں حکومتی موقف جمع کرایا جس میں ایف بی آر، ایس ای سی پی،نیب، وزارت قانون ، آئی بی اور ایوان وزیر اعظم کا جواب شامل کرتے ہوئے جے آئی ٹی کے الزامات کو مسترد کردیا گیا اورکہا گیا ہے کہ ان الزمات کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا ،وزیر اعظم ہاؤس نے بھی گواہوں کو سکھا نے پڑھانے کے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جے آئی ٹی کو اپنے الزام کا ثبوت پیش کرنا چاہیے۔اٹارنی جنرل کی جانب سے شکایت کی گئی ہے کہ ٹیلی فون ٹیپ ہورہے ہیں جس کا اعتراف خود جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے جبکہ گواہوں کی مانیٹرنگ اور فون ٹیپ کرنا قانون اور آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔اٹارنی جنرل کے بیان میں تمام متعلقہ اداروں کی جانب سے جے آئی ٹی کے الزامات کا جواب شامل ہے اور تمام الزامات بے بنیاد قرار دیے گئے ہیں۔ جبکہ وزیر اعظم ہاؤس کے ترجمان ڈاکٹر مصدق ملک نے بھی گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میںمشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے رویے کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بنائے گئے مسعود محمود جیسے وعدہ معاف گواہ ڈھونڈنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے جے آئی ٹی کے خلاف نہایت سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے اسے دھونس اور دھاندلی کے حربوں کا مرتکب قرار دیااور کہا کہ تعصب کی بنیاد پر فیصلوں سے جمہوریت اور ادارے مضبوط نہیں ہوں گے۔ ریاستی اداروں کے درمیان یہ کشیدگی جس قدر خطرناک مضمرات کی حامل ثابت ہوسکتی ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ملک کو بیرونی اور داخلی محاذوں اور ملک کی سرحدوں پر پہلے ہی نہایت سنجیدہ چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان حالات میںریاستی اداروں کی ایک دوسرے کیخلاف ایسی گرم گفتاری اور محاذ آرائی ہماریجگ ہنسائی کا سامان اور آئینی اور جمہوری نظام کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے جبکہ ملک کی بقا کیلئے آئینی نظام کا جاری رہنا بہرصورت ناگزیر ہے ۔ لہٰذا جے آئی ٹی اور حکومت دونوں کو باہمی محاذ آرائی سے مکمل گریز کرتے ہوئے اپنا موقف بیان کرنے کیلئے الفاظ کے انتخاب میں احتیاط ملحوظ رکھنی چاہیے اور بردباری اور تحمل کے ساتھ اپنے اپنے آئینی اور قانونی حدود میں رہنے کو اپنے لیے لازم کرلینا چاہیے نیز اس پورے عمل کو شکوک و شبہات سے مکمل طور پر محفوظ رکھا جانا بھی لازمی ہے تاکہ جو فیصلہ بھی ہو اس پر انگلی اٹھانے کی کوئی گنجائش نہ ہو اور وہ سب کیلئے قابل قبول اور واجب الاحترام قرار پائے۔

 

.

تازہ ترین