• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے بعد بننے والی جے آئی ٹی کا کام آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔تحقیقات کا سامنا کرنے والے فریقین کے تحفظات کے باوجود جے آئی ٹی ممبران کو تبدیل نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی دوران انکوائری لیک ہونے والی تصویر پر ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ والا کام ہوا ہے۔ بجائے یہ کہ جے آئی ٹی کے ممبران ذمہ دار کا نام پبلک کرکے سخت کارروائی کرتے بلکہ حکومتی اداروں کے خلاف رٹ کرکے سرائیکی کی مثال ہے کہ ’’گھونگلوئوں سے مٹی‘‘ اتاری گئی ہے۔جے آئی ٹی کی سپریم کورٹ آف پاکستان کو کی جانے والی شکایت کا 90فیصد حصہ اخباری خبروں، ٹاک شوز اور سوشل میڈیا ٹوئٹس پر مشتمل ہے۔جس کو دیکھ کر یہ تاثر پختہ ہونے لگتا ہے کہ یا تو جے آئی ٹی کے چھ ممبران صرف دیکھتے ہی ٹی وی اور سوشل میڈیا ہیں،یا پھر کوئی ’’کٹھ پتلی‘‘تمام میڈیا اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی مانیٹرنگ کررہی ہے اور درپردہ طور پر جے آئی ٹی کو ڈرائیو کررہی ہے۔کیونکہ صحافتی شعبے سے تعلق رکھنے کے باوجود کم از کم میں تو اتنے ٹاک شوز اور ٹوئٹس نہیں دیکھ پاتا،جتنے جے آئی ٹی کے ممبران نے 18،18گھنٹے کی تحقیقات کے باجود دیکھے ہیں یا پھر دکھائے گئے ہیں۔ کسی پر تنقید کرکے تحقیقات کے عمل پر اثر انداز ہونا ہر گز مقصد نہیں ہے ۔لیکن جے آئی ٹی کیلئے وہ کیفیت جلد آنے والی ہے جب آگے کنواں ہوگا اور پیچھے کھائی۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کونسی متحرک قوتیں ہیں جو واجد ضیاء جیسے ایماندار پولیس افسر کو بھی بے بس کئے ہوئے ہیں۔ا ٓج کے کالم میں چند حقائق قارئین کے گوش گزار کرونگا ،باقی فیصلہ کرنا عوام کا کام ہے۔
جب پاناما فیصلے کے بعد جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تو سپریم کورٹ نے ذمہ داری تفویض کی تھی کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم حقائق سامنے لائیگی۔ جے آئی ٹی کاکام حقائق کھول کر سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے رکھنا ہے نہ کہ خود پارٹی بننا۔جو کہ بدقسمتی سے جے آئی ٹی بن چکی ہے۔مجھ سمیت اکثریتی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ جے آئی ٹی بمقابلہ شریف خاندان ہے۔ جو کہ بہت زیادتی اور اختیارات سے تجاوز ہے۔ اگر یہ سمجھاجائے کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ آف پاکستان کا بڑھا ہوا بازو ہے(Extended Arm of SCP)۔ ایسے میں تو جے آئی ٹی پر دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غیرجانبدار اور مقابلے بازی سے خود کو آزاد رکھے۔ جے آئی ٹی ممبران کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ ان پر کتنی بھاری اور حساس ذمہ داری عائد کی گئی ہے مگران کے رویئے سے جے آئی ٹی اور ملک کے سب سے معتبر ادارے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ لاء ڈویژن نے کسی دوسرے ملک سے قانونی معاونت کا نوٹیفکیشن دو دن میں جاری کر دیا۔ معاملہ کیبنٹ ڈویژن سے متعلق تھا۔ وزیراعظم چین میں تھے مگر فون پر منظوری لینے کے بعد کابینہ کے تمام ممبران سے منظوری لی گئی اور نوٹیفکیشن دو دن میں جاری کیا گیا۔ جبکہ جے آئی ٹی کے ممبران نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں الزام لگایا کہ حکومت تاخیری حربے استعمال کررہی ہے اور پانچ دن تاخیر سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ وزارت قانون نے اس معاملے پر باقاعدہ تردید جاری کی اور ثابت ہوا کہ جے آئی ٹی کے ممبران نے غلط بیانی سے کام لیا تھا۔ کیا جے آئی ٹی کے ممبران کی غلط بیانی پر نوٹس لیا جائیگا؟ ایسے اہم اور حساس کیس میں اتنا غیر سنجیدہ رویہ؟ اسی طرح نیب کے شوکاز نوٹس کے معاملے کو لے لیں۔ جے آئی ٹی کے ممبر اور نیب کے ڈی جی کیخلاف غیر قانونی بھرتیوں کی تحقیقات پچھلے ایک سال سے جاری ہیں۔تحقیقات کے حوالے سے سخت عدالتی احکامات بھی ہیں۔ مگر اب موصوف افسر جے آئی ٹی کے نام پر غیر قانونی بھرتیوں کے معاملے سے بھی چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جو کہ شاید ممکن نہیں ہوگا۔اختیارات کے ناجائز استعمال کی اس سے بڑی مثال کیا ہوسکتی ہے۔
ہفتے کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔وزیراعلیٰ کی آمد سے قبل وفاقی جوڈیشل اکیڈمی کا موسم قدرے ٹھنڈا تھا۔ چوہدری نثار علی خان اور اسحاق ڈار وزیراعلیٰ پنجاب کے ہمراہ متحد نظر آرہے تھے۔ ہشاش بشاش شہباز شریف کے انداز سے محسوس ہورہا تھا کہ آج ان کا بلا کا اعتماد جے آئی ٹی کے ممبران پر بہت بھاری ثابت ہوگا۔ مگر جے آئی ٹی کے ممبران سے یہ ضرور کہنا چاہونگا کہ جس شخص نے گزشتہ دس سالوں کے دوران کھربوں روپے کے منصوبے اپنے دستخط سے دئیے ہیں۔
آج آپ اس سے لاکھوں روپے کے معاملے کی چھان بین کررہے ہیں۔آپ کو چلانے والی تمام پس پردہ قوتوں نے خوب چھان بین کی مگر مسلم لیگ ن کے کسی منصوبے میں بے ضابطگی ثابت نہیں ہوئی ۔ خوشی ہوتی اگر جے آئی ٹی گزشتہ دس سالوں کے دوران سامنےآنے والی کسی بے ضابطگی پر بات کرتی۔ ان حالات میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جے آئی ٹی معاملے سے جان چھڑانے کا راستہ ڈھونڈ رہی ہے اور اسے راستہ نہیں مل رہا۔
جے آئی ٹی وزیراعظم نوازشریف کیخلاف جیسے مرضی تحقیقات کرلے مگر خدارا سپریم کورٹ کی ساکھ سے مت کھیلے۔معاملہ نوازشریف کے حق میں یا خلاف فیصلے کا نہیں ہے بلکہ معاملہ اداروں کی بقا کا ہے۔ نواز شر یف سے متعلق جو بھی فیصلہ کردیں مگر سپریم کورٹ جیسے ادارے کو بچالیں۔ سول سوسائٹی،وکلاء برادری ،سیاسی جماعتوں اور میڈیا کے دوستوں نے بڑی جدوجہد سے اس ادارے کی خودمختاری بحال کرائی ہے۔مگر اب اس ادارے کو واپس انہی قوتوں کے ہاتھوں میں مت جانے دیں۔سپریم کورٹ کے حوالے سے پاکستانیو ںکے خلوص کا جلوس مت نکالیں۔ سپریم کورٹ کی ساکھ اور خود مختاری پر ایسی ہزاروں جے آئی ٹیز قربان کی جاسکتی ہیں مگر پاکستانی اب تاریخ کو دہرانے نہیں دینگے۔

 

.

تازہ ترین