• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کوئی معمولی الفاظ نہیں ہیں کہ جنہیں نظر انداز کرنے کیلئے فقط ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا جائے اور یہ کسی عام شخص کی دہائی بھی نہیں ہے کہ جس پر سوچ بچار کرنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی جائے۔ سرد لہجے میں انتہائی تلخ بات کرنے والے اس شخص کا نام نوازشریف ہے جو پاکستان کی تاریخ میں بھاری اکثریت سے تیسری بار وزارت عظمیٰ کے عہدے پرفائز ہونے والے اکلوتے خوش نصیب ہیں۔ وہی نوا زشریف جو بطور وزیراعظم پاکستان پاناما کیس کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کی طرف سے قائم کی گئی جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے بعد میڈیا سے خطاب کرتے ہیں تو ان کی طرف سے ادا کئے گئے ان غیرمعمولی الفاظ کی گونج تاحال کانوں میں سنائی دیتی ہے۔ مخالفین جتنے چاہئیں الزامات لگائیں،عوام کے فیصلوں کو روند کر مخصوص ایجنڈے چلانے والی فیکٹریاں بند نہ ہوئیں تو آئین اور جمہوریت ہی نہیں خدانخواستہ ملک کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جائے گی،ملک سازشوں اور تماشوں کی بھاری قیمت ادا کر چکا ہے،وقت آ گیا ہے کہ حق اور سچ کا علم حقیقی معنوں میں بلند ہو،اب ہم تاریخ کا پہیہ پیچھے کی طرف موڑنے نہیں دیں گے ،وہ زمانے گئے جب سب کچھ پردوں کے پیچھے چھپا رہتا تھا، کٹھ پتلی تماشا اب ختم ہو گیا،اب کٹھ پتلیوں کے کھیل نہیں کھیلے جا سکتے۔اور بھی بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں جو آنے والے دنوں میں قوم سے کہوں گا - وزیر اعظم کے اس بیان کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک باقاعدہ نپا تلا تحریری بیان تھا جس کا ایک ایک حرف کو کسی سیاق و سباق کے تناظر میں ضبط تحریر میں لایا گیا تھا جبکہ پیشی کے بعد اس میں تحریف یا اضافہ بھی زبانی نہیں بلکہ لکھی ہوئی شکل میں ہی کیا گیا تھا۔ اس حد درجہ احتیاط کی وجہ یہی تھی کہ غلطی کا کوئی احتمال باقی نہ رہے جبکہ پیغام واضح انداز میں متعلقہ حلقوں تک پہنچ جائے۔ پاناما کی تحقیقات میں پھنسے ہوئے وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے اضطراب کے باعث اس غیر معمولی بیان کا پس منظر سمجھنا تو چنداں دشوار نہیں لیکن مخصوص عبارت کے ذریعے کیا محض پیغام دینا ہی مقصود تھا یا آئین،جمہوریت اور خدانخواستہ ملکی سلامتی کو درپیش کسی مبینہ خطرے سے بچاو کیلئے اس سازش کو بے نقاب بھی کیا جائے گا جس کا اشارہ دیا گیا ہے۔ یہاں اس حقیقت کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ پاناما پیپرز نا تو پاکستان تحریک انصاف منظر عام پر لے کر آئی ہے اور نا ہی ان قوتوں کی کارستانی ہے جن کی طرف وزیر اعظم نے اشارہ کیا ہے بلکہ یہ 100 صحافتی اداروں کے عمر چیمہ جیسے 370 سے زائد صحافیوں کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہے جس کے ذریعے دنیاکے 80مالک کے 2 لاکھ 14 ہزار افراد،اداروں اور کمپنیوں کے بارے میں انکشافات سامنے آئے۔اس طرح پاناما پیپرز کی حد تک توموجودہ صورتحال کو کسی طورپر سازش نہیں کہا جا سکتا تاہم اس کے بعد پیش آنے والے واقعات ضرور وہ مخصوص ایجنڈا، کٹھ پتلی تماشا یا سازش ہو سکتے ہیں جن کی طرف وزیر اعظم نے اشارہ کیا۔ صاحب عقل و دانش ادراک رکھتے ہیں کہ سازش کو بھی پنپنے کیلئے ایک سازگار ماحول درکار ہوتا ہے اور حکمراں جماعت کو اس مرحلے پریہ اعتراف کرنے میں عار نہیں ہونی چاہئے کہ گزشتہ چار سال میں یہ ماحول فراہم کرنے میں ان کی حکومت کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ گزشتہ عام انتخابات کے بعد جب پاکستان تحریک انصاف نے دھاندلی کے الزامات کے تحت پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے حقیقی معنوں میں تماشالگایا تھا تو تب بھی جناب وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران ارشاد فرمایا تھا کہ جب یہ بحران حل ہو جائے گا تو وہ بتائیں گے کہ یہ معاملہ کب اور کس نے شروع کیا۔ بھلا ہو باغی کہلانے والے مخدوم جاوید ہاشمی کا جس نے کپتان سے بھی بغاوت کی اور خفیہ منصوبے کو افشا کرکے سارا کھیل ہی چوپٹ کر دیا لیکن بحران سے بچ نکلنے والے وزیر اعظم کو دوبارہ کبھی خیال نہ آیا کہ وہ اس تھرڈ ایمپائر کے بارے میں قوم کو بتا دیں جس کی انگلی کھڑی ہونے کا ’’ڈراوا‘‘ دیا جاتارہا تھا۔ اسی طرح صرف ڈیڑھ سال بعد ہی دوبارہ پاناما پیپرز کے معاملے پر اپوزیشن نے کمیشن قائم کر کے تحقیقات کرنے کا پرزور مطالبہ کیا اور حکومت کے خلاف سخت احتجاج کی دھمکی دی تو وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں ایک بار پھر فرمایا کہ وہ وقت آنے پر عوام کو بتائیں گے کہ یہ سب کیوں کیا جا رہا ہے،اس کے پیچھے کون سے عناصر ہیں اور اس کے مقاصد کیا ہیں لیکن وہ وقت پھر کبھی نہ آیا۔اب حکومت تیسری بار اسی مقام پہ پہنچ چکی ہے اور جناب نواز شریف پھر قوم سے آنے والے دنوں میں سب بتانے کا وعدہ کرگئے ہیں۔ یہ وعدہ توماضی کی طرح شاید انہیں یاد نہ آئے۔ لیکن وزیراعظم صاحب کو یہ باور ہونا چاہئے کہ اگر وہ لندن پلان کا پتہ چلنے پر اس کے کرداروں کو بروقت بے نقاب کر دیتے تو دھرنے کی سازش کا شکار ہونے سے بچ جاتے۔ اگر جاوید ہاشمی کے انکشاف کے بعد باضابطہ تحقیقات کی ہدایات دے دیتے تو ایک سو چھیبیس دن کا تماشا کبھی نہ لگتا۔ اگروہ پارلیمانی کمیشن کے ذریعے ان منصوبہ سازوں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیتے جنہوں نے منتخب جمہوری حکومت کے ہاتھ پائوں باندھ کر اسے شر پسندوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تھا تو اتنی ہزیمت برداشت نہ کرنا پڑتی۔ اگر مشاہد اللہ خان کے خلاف کاروائی کی بجائے مبینہ الزامات کی آزادانہ تحقیقات کرائی جاتیں تو کوئی پلان بی یا سی کا ذکر تک زبان پر نہ لاتا ،اگر قانون ہاتھ میں لینے والوں کے گرد اسی قانون کا آہنی شکنجہ کسا جاتا تو صوبائی حکومت کو اسلام آباد پر دوبارہ دھاوا بولنے کی شہہ نہ ملتی۔ پارلیمنٹ کو طاقت کا منبع سمجھ کر پاناما پیپرز کی تحقیقات کیلئے اپوزیشن کے ٹی او آرز کی روشنی میں کمیشن کے قیام پر رضامندی ظاہر کر دی جاتی تو جے آئی ٹی کے رحم و کرم پر نہ ہوتے ۔
ڈان لیکس کے معاملے کی تحقیقات شروع ہونے سے پہلے پرویز رشید جیسےبے قصور کو سزا نہ دیجاتی تو مطالبات کی فہرست طویل نہ ہوتی ۔ متنازع ٹویٹ کو ہار جیت کا مسئلہ بنانے کی بجائے ادارہ جاتی قیادت کی سطح پر خوش اسلوبی سے حل کیا جاتا تو بھرپور ہم آہنگی کی فضا قائم رہتی۔ رجسٹرار کی واٹس ایپ کال اور مبینہ طور پر متعصب ارکان کو جے آئی ٹی میں شامل کرنے کے معاملات پر سیاست کرنے کی بجائے مناسب قانونی اقدامات کئے جاتے تو ریاستی ادارے متنازع نہ ہوتے۔ ایمبولینس بھیجنے کی غلطی کو چھپانے اور دوسرے فریق پر الزام لگانے کی بجائے غلطی کا اعتراف کر لیا جاتا تو رائی کا پہاڑ نہ بنتا۔ حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کے معاملے میں غلطی کے مرتکب شخص کا پتہ ہونے کے باوجود اس پر خاموشی اختیار نہ کی جاتی اورآن ریکارڈ اس کا نام لیا جاتا تو معاملہ اس قدر متنازع نہ ہوتا۔ نہال ہاشمی کی متنازع تقریر کی اصل وجہ بیان کر دی جاتی اور اس کے واٹس ایپ رابطوں کا انکشاف کر دیا جاتا تو قابل اعتراض ریمارکس نہ سننے پڑتے۔ جن کیساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تھے انہیں ناراض کرنے کی بجائے مفاہمتی پالیسی کے تحت ساتھ لے کر چلا جاتا تو حکومتی مخالفت ایک حد سے زیادہ نہ بڑھتی۔ جمہوریت کے دفاع کیلئے پارلیمنٹ کو ہی مضبوط ڈھال بنایا جاتا تو کسی کو اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ ہوتی۔ جناب وزیراعظم سازش کو پنپنے کیلئے سازگار ماحول درکار ہوتا ہے اور جب تک یہ سازگار ماحول ملتا رہے گا یہ کٹھ پتلی تماشا جاری رہے گا۔ کٹھ پتلیوں کے اس کھیل کو روکنے کیلئے اب محض بیان نہیں بلکہ اس پر عمل کرتے ہوئے آپ کو پردے کے پیچھے موجود ان ہاتھوں کو عوام کے سامنے لانا ہوگا جن کی انگلیوں میں ان کٹھ پتلیوں کی ڈوریں ہیں۔

 

.

تازہ ترین