• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میںکچھ عرصے سے سوشل میڈیا نے اپنی اہمیت اتنی بڑھالی ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اسے فالو کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے صارفین کی جو طاقت گزشتہ دنوں دیکھنے کو ملی اسکی مثال اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ رمضان کے آغاز میں سوشل میڈیا پر کراچی سے ایک آواز اٹھی کہ ملک میں رمضان کی آمد پر پھل بہت مہنگے ہوگئے ہیں لہٰذا اس کی خریداری کا بائیکاٹ کیا جائے ، اس ایک نحیف آواز میں آوازیں ملتی گئیں اور پھر پورے ملک میں نہ صرف پھیل گئیں بلکہ اتنی طاقتور بن گئیں کہ لوگوں کے بڑے موثر انداز میں کراچی کے اندر پھلوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے ’’ پھل مافیا‘‘ کو پھلوں کی قیمتیں کم کرنا پڑیں ۔ لاہور میں بھی مختلف لوگوں نے ایسی مہم کو بہت مثبت اقدام کہا اور بیشتر لوگوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے بہت مجبوری میں افطاری کیلئے پھل خریدے مگربہت تھوڑی مقدار میں ۔ سوشل میڈیا پر صارفین کی اس مہم کی وجہ سے لوگوں کے اندر نہ صرف شعور پیدا ہوا ہے بلکہ وہ آئندہ ایسی کسی بھی مہم کیلئے عملی کردار ادا کرنے کو تیار ہوگئے ہیں ۔ دیکھتے دیکھتے اب مختلف کنزیومر آئیٹم کے حوالے سے آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔
صارف تو صرف کھانے پینے کی چیزوں کا نہیں ہوتا بلکہ ہر وہ چیز جو اسکے استعمال میں آتی ہے وہ اس کا صارف ہے اور صارف کے بہت سے حقوق ہیں۔ اب صحیح وقت ہے کہ وہ اپنے حقوق کو پہچانے اور اس کے حقوق اگر کوئی بھی ادارہ خواہ وہ پبلک کا ہو یا پرائیویٹ، کوئی عام دکاندار ہو یا کوئی بڑا ا سٹور ، ٹی وی چینلز ہوں یا پرنٹ میڈیا ،آپ کوئی بھی ایسی چیز خریدتے ہیں اگر وہ مطلوبہ معیار کی نہیں یا اس کی وجہ سے کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ ہو تو صارف اس کے خلاف نہ صرف آواز اٹھا سکتا ہے بلکہ صارف عدالتوں میں جا سکتا ہے اور میرے خیال میں صارف عدالتیں بھی اس وقت موثر انداز میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں اگرسوشل میڈیا کے ذریعے بہتر انداز میں لوگوں کو ان کے حقوق کا علم ہو ،پاکستانی معاشرے میں جس طرح کی بددیانتی ہر محکمے اور ہر جگہ پائی جاتی ہے، یہاں تو ہر چیز کی درستگی کیلئے ایک موثر تحریک چلانے کی ضرورت ہے لیکن سب سے پہلے صارفین کو مہنگائی اور اشیائے خوردو نوش میں ملاوٹ کے خلاف تحریک چلانی چاہئے، کیونکہ حکمراں اور حکومتیں خالص اشیا کی فراہمی اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں بالکل ناکام ہو چکی ہیں ۔ حکمراںاور حکومتیں اپنی حکمرانی کی کمزوریوں کو چھپانے کیلئے کبھی سبسڈی کے نام پر اسکیمیں شروع کرتی ہیں تو کبھی اتوار بازار ، جمعہ بازار، ماڈل بازار اور رمضان بازار کے نام پر اربوں روپے کے پیکج صرف اسلئے متعارف کروائے جاتے ہیں کہ ان سے اُن کی خرابیاں چھپ جائیں اور میڈیا پر ان کی تشہیر سے سیاسی دکانداری چمکتی رہے۔ اس رمضان کی آمد پر وزیراعظم کی طرف سے میڈیا پر اشتہارات شائع ہوئے کہ رمضان کو آسان بنانے کیلئے وزیراعظم کے عوام دوست اقدام سے پاکستان بھر کے تمام یوٹیلیٹی اسٹورز پر ایک ارب 60کروڑ روپے کی سبسڈی کا رمضان پیکج دیا گیا ہے، اس کے علاوہ ملک بھر میں پھیلے یوٹیلیٹی اسٹورز کے وسیع نیٹ ورک پر 24سو سے زائد اشیا پر دس فیصد قیمتوں میں کمی کر دی گئی ہے۔ اس پر صرف اتنا تبصرہ کرناکافی ہے کہ یہ سراسر غلط ہے ایک تو پاکستان کی چار فیصد آبادی سے زیادہ یوٹیلیٹی ا سٹورز سے مستفید نہیں ہوتے پھر یہاں جو اشیا رکھی گئی ہیں وہ نہ صرف غیر معیاری بلکہ ان کے اوزان بھی کم ہیں اور اس نیٹ ورک کو چلانیوالے مبینہ طور پر ایک مافیا ہیں ۔ گھی ، چینی اور آٹا جیسی چیزیں جو سبسڈی کیساتھ یوٹیلیٹی اسٹورز کو ملتی ہیں وہ آگے منافع کیساتھ بالا بالا بیچ دی جاتی ہیں اور عام آدمی اس سے استفادہ ہی نہیں کرپاتا اگر کوئی عام صارف چینی ، گھی یا آٹا لینے جاتا ہے تو اس پر شرط لگا دی جاتی ہے کہ پہلے دیگر آئیٹم کی خریداری کی جائے تو چینی اور گھی مل سکتا ہے۔ اس وقت پنجاب حکومت نے کروڑوں روپے کے اشتہارات دیئے ہیں کہ خادم پنجاب کی جانب سے 9ارب روپے سے زائد پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا رمضان پیکج دیا گیا ہے ۔
8ارب 78کروڑ کی بے مثال سبسڈی سے پنجاب بھر میں 319سستے رمضان بازار اور فیئرپرائس شاپس قائم کی گئی ہیں—لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ رمضان بازار قائم کرنے کیلئے پیسہ تولگایا گیا ہے ، بعض جگہوں پر لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام اور کولر بھی لگائے گئے ہیں مگر وہاں ملنے والی اشیا بہت ہی غیر معیاری ہیں جبکہ ان کے ریٹس مارکیٹ سے بھی زیادہ ہیں،یہ رمضان بازار حکومتی کارکردگی کی نمائش کے علاوہ قطعاً کوئی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ یہ بازار لگا کر عوام کیلئے مشکلات پیدا کر دی گئی ہیں کیونکہ زیادہ تر بازار سڑکوں کو بند کر کے لگائے گئے ہیں جو انسانی بنیادی حقوق کیخلاف ہے۔صوبہ بھر میں 319رمضان بازار کیا 12کروڑ عوام کی پہنچ تک ہیں تو اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ پانچ فیصد سے زیادہ لوگوں کیلئے ان سے استفادہ ممکن ہی نہیں حکومت پنجاب نے اپنی شو بازی صرف رمضان بازاروں تک محدود نہیں رکھی بلکہ پنجاب بھر کے تمام اضلاع میں ماڈل بازار لگانے کیلئے ’’ پنجاب ماڈل بازار مینجمنٹ کمپنی‘‘ بنا دی ہے اور اس کمپنی کے تحت لاہور میں دس ، فیصل آباد میں 2اور باقی اضلاع میں ایک ایک ماڈل بازار بنائے جارہے ہیں ۔ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان بازاروں میں معیاری اشیاءکی سرکاری ریٹ پر فراہمی کو یقینی بنایا جائیگا ۔ صارفین وزیراعلیٰ سے یہ سوال کرنے کی جسارت کرتے ہیں کہ کیا ہر ضلع کا ایک ماڈل بازار ضلع بھر کی آبادی کیلئے کافی ہے ، کیا ان بازاروں کے قیام سے اُس ضلع کے باقی تمام اسٹورز اور بازار بند کر دیئے جائینگے ، کیا ان بازاروں میں سرکاری ریٹس پر اشیا ضروریہ دستیاب ہیں تو باقی بازاروں میںسر کاری ریٹ پر کیوں دستیاب نہیں ہو سکتیں، کیا یہ حکومت کی ناکامی نہیں کہ وہ نہ تو لوگوں کو معیاری اور خالص اشیا فراہم کرسکتی ہے اور نہ ہی پرائس کنٹرول کرسکتی ہے بلکہ خود مختلف مافیا پیدا کر کے پہلے سے موجود بازاروں کے مقابلے میں ماڈل بازار بنا کر عوام کو بیوقوف بنانے اور اپنے آپ کو خوش فہمی میں مبتلا کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔ یہ سستے بازاروں کا فراڈ بند کرنا چاہئے اور ایسی اسکیمیں بنا کر لوگوں کو بھکاری بنانے کی بجائے سبسڈی ختم کی جائے اور اس کی بجائے لوگوں کی تنخواہیں بڑھائی جائیں ،لوگوں کیلئے روز گار کے مواقع پیدا کئے جائیں تاکہ ذریعہ آمدنی میں اضافہ ہو سکے۔ ذخیرہ اندوزی کو روکا جائے، زرعی پیداوار کی لاگتیں کم کی جائیں ، افراط زر کم کیا جائے اور عوام میں تفریق پیدا کرنے کی بجائے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ عام مارکیٹوں میں معیاری اور خالص اشیاسستے داموں فراہم ہوں۔ اس کیلئے سوشل میڈیا کے ذریعے موثر تحریک چلانے کی ضرورت ہے ۔لوگوں میں یہ شعور پیدا کرنا چاہئے کہ صارفین بہت بڑی طاقت ہیں، انہیں اپنے حقوق کیلئے اس طاقت کو استعمال کرتے ہوئے حکمرانوں کو مجبور کرنا چاہئے کہ وہ معیاری اور خالص اشیاء ارزاں نرخوں پر فراہم کریں اور ماڈل بازاروں کی ڈرامے بازی سے عوام کو بیوقوف بنانا بند کر یں !

 

.

تازہ ترین