• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور افغانستان سے متعلق ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی تشکیل کے آخری مراحل میں ہے جس کا عنقریب اعلان کردیا جائے گا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں یقینا پاکستان پر دبائو بڑھے گا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان سے متعلق پالیسی ایک ساتھ بنائی جارہی ہے۔ یہ پالیسی ٹرمپ حکومت بنا رہی ہے اور وہ پاکستا ن پر اتنے برہم ہیں کہ ریاض کانفرنس میں پاکستانی وزیراعظم سے چند منٹ کی ملاقات پربھی آمادہ نہیں ہوئے۔ ایک طرف امریکہ اور سعودی عرب کی قیادت میں بننے والا ایسا اتحاد ہے کہ جس میں ملائشیا اور انڈونیشیاجیسے ممالک بھی شامل ہیں اور دوسری طرف ایران ہے۔ اب تو معاملہ یہاں تک آگیا کہ قطر اور ترکی ایک طرف جبکہ سعودی عرب اور یواے ای دوسری طرف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کس طرف جائے ؟۔اسی طرح ایک پڑوسی یعنی ہندوستان محدود پیمانے کی جنگ کا آغاز کرچکا ہے۔ دوسرا پڑوسی ایران ناراض ہے اور تیسرا پڑوسی افغانستان برہم ہے۔ صرف چین خوش ہے لیکن چین کی دوستی کی وجہ سے امریکہ سمیت کئی عالمی اورعلاقائی طاقتیں آگ بگولہ ہورہی ہیں۔ لیکن پاکستانی میڈیا میں، پاکستان کی سلامتی سے متعلق ان اہم ترین ایشوز کو جگہ نہیں مل رہی۔ یہاں پانامہ پانامہ اور توتومیں میں کا کھیل زوروں پر ہے۔ ایک فریق کسی بھی قیمت پر وزارت عظمیٰ بچانے میں ہمہ ترین مصروف ہے اور دوسرا فریق کسی بھی قیمت پر وزارت عظمیٰ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے ارد گرد جو کھچڑی پک رہی ہے، اس میں کہیں خاکم بدہن پاکستان ہاتھیوں کی لڑائی میں مینڈک کی صورت حال سے تو دوچار نہیں ہوگا، اس کی فکر کسی کو نہیں۔ مشرق وسطیٰ، ایران اور دیگر خطوں میں بھڑکائی جانے والی آگ کے شعلے تو شاید کچھ وقت بعد پاکستان تک پہنچیں گے لیکن افغانستان کے بارے میں تو ہمارے عسکری اور سیاسی قائدین کا اجماع ہے کہ وہاں کے حالات سے پاکستان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بدقسمتی سے افغانستان میں اس وقت جو کچھ ہورہا ہے،وہ نہایت افسوسناک اور تشویشناک ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ افغانستان میں آج سے چند سال قبل صرف پاکستان، ہندوستان اور ایران یا سعودی عر ب کی پراکسی وار گرم تھی لیکن اب امریکہ، روس، جرمنی، برطانیہ، ترکی اور اسی طرح کے دیگر درجنوں عالمی اور علاقائی قوتوں نے بھی پراکسی وار برپا کردی ہے۔ آج سے کچھ عرصہ قبل افغان حکومت کو صرف طالبان کی مزاحمت کا سامنا تھا لیکن اب داعش کا فیکٹر بھی شامل ہوگیا ہے۔ آج سے کچھ عرصہ قبل وہاں کی حکومت صرف کمزور تھی لیکن اب اس میں بڑی خطرناک دراڑیں بھی پڑ گئی ہیں۔ نتیجتاً یہ حالت ہوگئی ہے کہ افغان دارالحکومت کابل میں اب دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے بے گناہ شہریوں کا جینا محال ہوگیا ہے۔ پاکستان کیلئے خطرناک تبدیلی یہ آگئی ہے کہ پہلے پاکستان پر الزام صرف بعض حکومتی اہلکار لگارہے تھے لیکن اب صدر سے لے کر عام شہری تک ہر افغانی اپنی زبوں حالی کیلئے پاکستان کو موردالزام ٹھہرارہاہے۔
ایک طرف پاکستان کیلئے یہ چیلنجز بڑھ رہے ہیں اور اس کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے لیکن دوسری طرف پاکستانی سیاست اور صحافت کے میدانوں میں ان ایشوز کا تذکرہ سننے کو ملتا ہے اور نہ ان پر کوئی غور ہورہا ہے۔ دشمنوں کی تیاریوں اور پاکستان کے میڈیا میں ہونے والے بے کار مباحث کو دیکھ کر پاکستان پر خاکم بدہن اس وقت کے بغدا د کا گمان ہوتا ہے کہ جب تاتاریوں کی فوجیں اس کو تاراج کرنے کیلئے آگے بڑھ رہی تھیں لیکن وہاں مختلف فروعی مسائل پر مناظرے گرم تھے۔ گیلپ آف پاکستان نے مارچ 2017 میں قومی اخبارات میں شائع ہونے والے ممتاز کالم نگاروں کے 3358آرٹیکلز کا جائزہ لیا ہے۔ سروے کی رو سے 27فی صد آرٹیکلز کا موضوع امن وامان، 19 فی صد کا سوشل ایشوز، 10 فی صد کا سیاست، 9 فی صد کا معیشت، 8 فی صد کا گورننس، پانچ فی صد عالمی امور، چار فی صد قانون، دو فی صد تعلیم اور صرف ایک فیصد صحت سے متعلق تھے۔ اسی طرح گیلپ آف پاکستان ہر ماہ ٹی وی چینلز کے آٹھ پاپولر ٹاک شوز کا جائزہ پیش کرتا ہے۔ فروری 2017کے مہینے کے اعدادوشمار دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ تشویشناک بھی ہیں۔ اس کی رو سے ان ٹاک شوز میںجن موضوعات پر بحث ہوئی ان میں 29فی صد داخلی سیکورٹی، 16 فی صد سیاست، 15 فی صد گورننس، 21 فی صد لا اینڈ آرڈر، 3فی صد معیشت دو فی صد میڈیا سے متعلق تھے لیکن بین الاقوامی تعلقات، تعلیم اور صحت کے موضوعات سرے سے شمار میں ہی نہیں آئے بلکہ وہ متفرق کے خانے میں چلے گئے ہیں۔ دنیا کے میڈیا میں مختلف موضوعات پر بحث کیلئے اس کے ماہرین بلائے جاتے ہیں لیکن پاکستانی میڈیا کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر موضوع پر سیاستدانوں اور وہ بھی زبان دراز، سطحی گفتگو کرنے والوںکو بلایا جاتا ہے۔ مثلاً گیلپ کے اس سروے کے مطابق فروری کے مہینے میں ان ٹاک شوز میں جو مہمان بلائے گئے ان میں ساٹھ فی صد سیاستدان، چودہ فی صد اکیڈیمکس، دس فی صد میڈیا پرسنز جبکہ صرف ایک فی صد ریسرچرز یا مصنف تھے۔ عالمی معیار یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو پارلیمنٹ میں اس کی نمائندگی کے حساب سے میڈیا میں بھی نمائندگی دی جاتی ہے لیکن پاکستانی میڈیا میں معاملہ الٹ ہے۔گیلپ کے مطابق فروری کے مہینے میں ٹی وی ٹاک شوز میں پاکستان تحریک انصاف اور حکمران مسلم لیگ (ن) کو اکتیس اکتیس فی صد نمائندگی دی گئی۔ پیپلز پارٹی جو دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے کے حصے میں صرف بیس صد وقت آیا۔ متحدہ قومی موومنٹ کو چار فی صد وقت ملا جبکہ حیرت انگیز طور پر جماعت اسلامی اور شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ کو دو دو فی صد وقت ملا۔ گویا ہمارےمیڈیا کی نظروں میں جماعت اسلامی اور شیخ رشید احمد کی ایک سیٹ والی عوامی مسلم لیگ کی ایک جتنی وقعت ہے۔ رہی اے این پی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، اختر مینگل کی جماعت اور جمعیت علمائے اسلام وغیرہ تو ان کو ایک ایک فی صد وقت بھی نہیں ملا۔ گیلپ ہی کے مطابق گزشتہ سال کے نومبر کے مہینے میں لئے گئے جائزے کی رو سے ان ٹاک شوز میں پی ٹی آئی کو تینتیس فی صد، مسلم لیگ (ن) کو انتیس فی صد جبکہ بیچاری پیپلز پارٹی کو 25فی صد وقت عنایت کیا گیا۔
یہ تو وہ ظلم ہے جو اعداد و شمار کی صورت میں نظر آتا ہے لیکن ہم میڈیا والوں کے بہت سارے غیر محسوس جرائم بھی زوروں پر ہیں۔ مثلاً میڈیا میں خبر اور تجزیے کی تفریق ختم ہوتی جارہی ہے۔ اسی طرح نیوز اور انٹرٹینمنٹ کو مکس کردیا گیا۔ شوبز کے لوگ مفتی بن گئے ہیں اور مفتیان کرام کو انٹرٹینمنٹ کی زینت بنایا جارہا ہے۔ اب تو یہ نیا اور غلط رجحان سامنے آگیا ہے کہ ایک ہی بندہ ایک شو میں سیاسی رہنما ہوتا ہے، دوسرے میں تجزیہ کار اور تیسرے میں پروگرام کا میزبان۔
یہی وجہ ہے کہ میڈیا کی ترقی کے باوجود لوگ انفارمرڈ ہونے کی بجائے ڈس انفارمڈ ہورہے ہیں اور دیکھنے والے ایجوکیٹ ہونے کی بجائے کنفیوژڈ ہوتے جارہے ہیں۔ اب رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی۔ الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے تو چلو پھر بھی پیمرا اور اس سے بڑھ کر عدالتیں ہیں۔ یہاں جو بولتا ہے وہ نظر آتا ہے اور ان کی پہچان واضح ہوتی ہے لیکن ا ب سوشل میڈیا پر جو کچھ ہورہا ہے، اس پر تو کوئی قدغن نہیں۔ نہ بندہ سامنے ہوتا ہے، نہ ان کی شناخت واضح ہوتی ہے، نہ کسی کو عدالت کا خوف ہے اور نہ پیمرا کا۔ روزنامہ ڈان کے دو تحقیقاتی رپورٹروں جہانزیب حق اور عمر بشیر نے اس حوالے سے جو تحقیق کی ہے وہ سب کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے کہ کس طرح کالعدم دہشت گرد اور انتہاپسند تنظیمیں سوشل میڈیا کے ذریعے ہر گھر تک پہنچ رہی ہیں۔ لیکن یہ تو معاملے کا صرف ایک رخ ہے۔ معاملے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگوں کی عزتیں اچھالی جاتی ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ گالم گلوچ کا کلچر عام کیا جارہا ہے لیکن کوئی روکنے والا نہیں۔ سیاسی کلچر گندہ ہورہا ہے لیکن تدارک کرنے کی بجائے سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھورہے ہیں۔ایک دوسری بیماری سوشل میڈیا پر جعلی اکائونٹس کی عام ہے اوراب تو نئی روایت یہ سامنے آئی ہے کہ لوگ اپنی طرف سے من گھڑ ت تحریر لکھ کر آپ کی تصویر کے ساتھ وٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے دوسروں تک بھجوا دیتے ہیں اور صفائی ہوتے ہوتے وہ لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ ان دنوں ہر روز میری تصویر کے ساتھ عموماً عمران خان سے متعلق گالم گلوچ پر مبنی من گھڑت تحریر لکھ کر وٹس ایپ اور سوشل میڈیا کے ذریعے تقسیم کیا جاتی ہے۔ میں وضاحت کروں تو کس کس کی کروں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سوشل میڈیا اور یہ موبائل فون تو دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہیں تو وہاں اس کا یہ بھیانک استعمال کیوں نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وہاں ایجنسیوں اور سیاسی جماعتوں کے خوف سے لوگ اس نوع کا استعمال نہیں کرسکتے۔ لیکن پاکستان میں تو المیہ یہ ہے کہ خودخفیہ ایجنسیاں بھی سوشل میڈیا کو بعض اوقات انہی مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہیں اور خود حکمران جماعتوں نے بھی انہی مقاصد کیلئے سوشل میڈیا ونگ بنارکھا ہے۔یقیناًآغاز پاکستان تحریک انصاف نے کیا تھا اور ان حرکتوں کا آغاز بھی اسی نے کیا تھا لیکن اب دیگر تمام جماعتوں نے بھی اپنے اپنے سوشل میڈیا سیل بنادئیے ہیں اور جعلی اکائونٹس بھی بنائے جارہے ہیں۔پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ن) کے سرکردہ لوگ تو ابھی سے اگلے الیکشن کے تناظر میں بیرون ملک بھی اپنے اپنے سیل مضبوط کررہے ہیں۔ آزادی اظہار مجھ سے زیادہ کسی اور کو عزیز نہیں ہوسکتی کیونکہ میری روزی روٹی بھی اسی سے لگی ہوئی ہے لیکن اگر سوشل میڈیا کو اسی طرح شتر بے مہار چھوڑا گیا تو اس ملک میں نہ صرف یہ کہ کسی کی عزت محفوظ نہیں رہے گی بلکہ کسی وقت یہ کسی بہت بڑے فساد کا بھی ذریعہ بن سکتا ہے۔

 

.

تازہ ترین