• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی اندازہ کرسکتا ہے عامر و حسن اور فخر و اظہر کے زور ِ بازو کا، شاداب کی شادابی کا، کرکٹ میدان میں حفیظ کی پروفیسری کا، پھر کپتان سرفراز کی سرفرازی کا اور میدان میں اترے ان کے ایک ایک ساتھی کی ہائی فائی ٹیم اسپرٹ کا؟برسوں سے کرکٹ کی برتری کے غرور میں ڈوبے بھارتی کرکٹ سورمانہ کرسکے تو اور کوئی کیا کرے گا۔ یہ ہمارے وہ خالص پاکستانی بچے ہیں جنہوں نے چندہی گھنٹوں میں لندن کے اوول اسٹیڈیم سے 20کروڑ ہم وطنوں کے لئے اتنی خوشیاں، اتنا حوصلہ، اتنا جذبہ، اتنا اتحاد، اتنا استحکام اور اتنا فخر و شکر سمیٹا کہ ہم سے سنبھل نہیں رہا۔ لیکن اگلا اور بڑا چیلنج یہ سب کچھ سنبھالنے کا ہی ہے۔آج ادھورا ہی نہیں پورا پاکستان، سرینگر سے لے کرگوادر تک پاکستان شاد اورہر پاکستانی کا دل مسرتوں سے آباد۔ ادھر بھارتی کرکٹروں کے دل شرمندگی اور مایوسی سے بھر گئے اور وہ بیچارے اتنی بڑی شکست کا بوجھ اٹھائے گھر گئے۔ گائوں گھروندوںاور گندے مندے گلی محلے سے نکلنے والے ہم سے کچھ بھی تو نہ لینےوالے بچوں نے رمضان کی ایک ہی بابرکت شام میں ہمیں کتنا کچھ دیا۔ بحرانوں اور مایوسی سے نکلنے کا حوصلہ، یقین کی دولت۔ ہر دم لڑتے بھڑتے پاکستانیوں کو چند ہی گھنٹوں میں کیسا Syenergisedکیا۔ ملک کا ایک ایک شہری، کیا مسلمان، کیاعیسائی، سکھ، ہندو، پارسی سبھی تو پاکستان کی محبت اوراس کی فتح کی مسرتوں سے مخمور ہوتے گئے۔ مرد وزن، بچوں، بڑوں، شہری دیہاتیوں سب ہی کی خوشی کتنی سانجھی اور سچی تھی۔ ہمارے نونہالوں نے گھاگ بھارت کو صدمے، مایوسی اور غصے کےسمندر میں غرق کردیا۔ ڈوبنے والے نہیں جانتے کہ برسوںسے دہشت گردی، سیاسی واقتصادی بحرانو ں سے گھرے اور علاقائی و بین الاقوامی سازشوں کا مسلسل شکار، طلوع ہونے والے اپنے خالق پر کتنا بھروسہ کرتے ہیں، کتنے صابر و شاکر اور کتنے باصلاحیت؟جانتے تو جیسے اب ہمارے بچوں کی اصلیت کو مان رہے ہیں، پہلے مانتے اور بمطابق میدان میں اترتے۔ آج بھارتی میڈیا میں اوول کی نہ بھولنے والی شکست کا سب سے بڑا رونا یہ رویا جارہا ہے کہ ’’پاکستانیوں کو انڈرایسٹیمیٹ کیا گیا‘‘ گویا شاہین بچوں نے اپنی ابتدائی پرواز میں ہی قوم کو یقین محکم اور عمل پیہم پھر اتحاد و تنظیم سے نہیں نوازا بھارتیوں کا بخار بھی اتار دیا جو ہر وقت پاکستان کی مخالفت اور نفرت میں اتنا چڑھا رہتا ہے کہ وہ پاکستان پر حملہ آور ہونے کا ہی کوئی موقع نہیں جانے دیتے بلکہ اس کو رسوا کرنے، پیچھے دھکیلنےاور نیچے رکھنے کے لئے مسلسل سازشیں بھارتی قومی زندگی کا جیسے لازمہ بن گیا۔ پاکستانی ہونہار کرکٹروں نے بھارت کو جو سبق دیا ہے اس میں ان کے منفی رویئے اور نفرت و حسد سے پیدا ہونے والے نفسیاتی امراض کو افاقہ ہوگا۔اس کی واضح جھلک گزشتہ شام بھی بعد از عبرتناک شکست پر بھارتی میڈیا کے مجموعی رویئے سے نظر آئی۔ وہ بھارتی میڈیا جس کے اینکر پرسن ہر دوسرے تیسرے مہینے کسی منفی واقعہ کا بے بنیاد الزام پاکستان پر دھر کراتنے سیخ پا ہوتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ وہ پاکستانیوں کی جانب بار بار انگلی اٹھاتے ٹی وی اسکرین توڑ کر ہی باہر نہ آجائیں۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ جن پاکستانی بچوں نے پاکستان کو اتنا کچھ دے دیا ہم (بڑوں) نے بھی انہیں کچھ دینا ہے۔ یہ تو ہمارے تابع اور وفادارہیں اوررہیں گے، ان کا موقع ملنے پر ہماری جھولیاں خوشیوں سے بھر دینا کوئی مشروط نہیں، لیکن ہم بڑے اپنے تمام تر کرتوتوں کے ساتھ ساتھ یہ نہ بھولنا چاہئے کہ جن پاکستانی بچوں نے بھارت سے کرکٹ چیمپئنز ٹرافی چھین کر پاکستان کو دی ہے ’’دشمن‘‘ان پر کڑی نظر رکھے گا۔ اللہ انہیں نظربند سے بچائے (آمین) ان کے ٹیلنٹ کی حفاظت اور اس میں اضافہ، ان کی گرومنگ، ان کو سازشوں سے محفوظ رکھنا اور مخالفین کے حسد سے، ہم سب کے بڑے فریضوں میں شامل ہوگیا۔ سمجھا جائے کہ جدید دنیا میں ’’کرکٹ نیشن‘‘ ہونے کا تشخص پاکستان کے پروقار، پرامن، بین الاقوامی تشخص، سرگرم قوم، زندہ قوم ہونے کی علامت ہے۔ ملک میں برسوں تک جاری رہنے والی دہشت گردی کے علاوہ بھی ہماری اپنی کرکٹ پالیٹکس کرپشن بیڈ گورننس خصوصاً کنبہ پروری جیسی لعنتیں اور نحوست بھی ہمارے کرکٹ بحران کا باعث بنی یہ ہی قباحتیں ہماری شہرۂ آفاق اور کلاسیکل ہاکی کو کھا گئیں۔ کسی طرح قدرتی اور حسین گزرگاہ سےگزرتا پاکستان میں گجر خان کا ’’ہاکی آئی لینڈ‘‘ پیدا ہوا، جسے ہماری حکومتوں، گھاگ ایلڈرز، سیاست بازوں اورمکار بابوئوں نےمل جل کر ڈبو دیا۔ پاکستانی سپورٹس کے قدرتی پوٹینشل سے مالا مال نیشن ہے۔ قوم کو اور میڈیا کو کڑی نظررکھنے کی ضرورت ہے کہ کھیلوں سے بھی کوئی رشوت کے ذرائع نکالتا ہے۔ اس میدان میں کون کنبہ پروری کا مرتکب ہوتاہے۔ بیرونی دشمن ہماری اسپورٹس آئیڈنٹٹی اور پوٹینشل دونوں کےکتنے اور کیسے درپے ہیں؟ اس پر کون سیاست کرتاہے اور کھیلوں کو کون اور کیسے سیاسی رنگ دیتا ہے؟
نہ بھولا جائے کرکٹ ہی نہیں بلکہ باقی کھیل بھی، ان کی حفاظت، ان کی پرورش اور ترقی ہماری قومی یکجہتی، جدیدیت، اتحاد، قومی مسرتوں، متوازن سماجی رویوں، مہلک جذباتیت سے بچائو، مثبت جذبے کے تحفظ کی خصوصاً نوجوانوں کے انتہائی بنیادی حق سے براہ راست تعلق رکھنے والی ایک بڑی اور حساس قومی ضرورت ہے۔ یہ فقط کوئی کھیل تماشہ یا عوامی تفریح ہی نہیں، آج کی جدید دنیا میں معروف بین الاقوامی اور علاقائی کھیلوں سے ہماری کتنی ہی قومی، نفسیاتی اور سماجی ضرورتیں جڑ گئی ہیں۔ اس کا بے پناہ اور بروقت احساس اوول میں شیر و شاہین بن جانے والے ہمارے بچوں نے ہمیں دلایا ہے۔
ذہن نشین رہے حکمرانوں اور اپوزیشن کے بھی، اسٹیٹس کو کو ہی جمہوریت جاننے والوں اور تبدیلی کے علمبرداروں کے بھی اور میڈیا اور دانشوروںکے بھی ان گنت حسن، عامر، شاداب و فخر پر ہماری نظر نہیں پڑی کہ ہمارے پاس اس کا کوئی نظام ہے اور نہ ہوش اور کتنے ہی تو ہم نے اینٹوں کے بھٹوں، تپتی ورکشاپوں اور ایسے سخت گیر ماحول کی نظر کرکے انہیں مفلوک اور اجڈ بنا دیا۔ یقین نہ آئے تو آج پاکستان کی فاتح کرکٹ ٹیم کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرلیا جائے تو ہم سب (بڑے ) شرم سے ڈوب جائیں گے۔

 

.

تازہ ترین