• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں سعودی عرب نے قطر سے نہ صرف اپنے سفارتی تعلقات منقطع کیے اس کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات، مصر، بحرین وغیرہ نے بھی سفارتی تعلق ختم کردیا یہ سب کچھ ریاض کانفرنس جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شریک ہوئے تھے کے بعد ہوا تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس ساری کارروائی کے پس پشت امریکہ کا ہاتھ ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو ایک معروف تاجر ہیں جن کی کئی مختلف تجارتی کمپنیاں عالمی سطح پر کام کر رہی ہیں وہ اپنے منصب صدارت کو بھی اپنی تجارت کی طرح ہی چلا رہے ہیں سعودی عرب جو پہلے ہی یمن اور شام کے محاذوں میں الجھا ہوا ہے اور دھڑا دھڑ ان محاذوں پر امریکی اسلحہ استعمال کر رہا ہے اب ایک اور معاہدے کے تحت ایک سو دس ارب ڈالر کے ہتھیار خریدے گا دوسری جانب قطر حکومت نے بھی امریکہ سے بارہ ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے اس معاہدے پر امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس اور قطر کے وزیر دفاع خالد بن العطیہ نے دستخط کیے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس سے داعش کے خلاف جاری جنگ میں مدد ملے گی، اگر دیکھا اور سمجھا جائے تو امریکہ کا اپنے ہتھیار فروخت کرنے اور اپنی اسلحہ ساز فیکٹریوں کو مسلسل چلتا رہنے کے لئے کہیں نہ کہیں میدان کار زار گرم رکھنا ضروری ہے اسی حکمت عملی کے تحت اس نے سعودی عرب اور قطر کو آمنے سامنے کھڑا کردیا ہے اگر کسی وجہ سے یا کسی ثالثی کی کوششوں سے جنگ نہ بھی ہو تو بھی امریکہ کا تو الو سیدھا ہو گیا اس کے ہتھیار تو فروخت ہو ہی گئے اب انہیں کب اور کیسے استعمال کرنا ہے یہ بعد کا مسئلہ ہے۔
امریکا ہی کیا تمام یورپی ممالک کا یہ شیوہ رہاہے کہ لڑائو اور حکومت کروگزشتہ نصف صدی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لی جائے تو ان تمام غیر مسلم ممالک میں تمام تر اختلافات کے باوجود کبھی میدان کار زار نہیں سجا ہاں اپنی سرپرستی میں کبھی کویت کو ایران سے لڑوا دیا کبھی عراق کو ایران پر چڑھا دیا تو کبھی اپنے مفادات حاصل کرنے کیلئے مسلم ملک پر چڑھائی کردی عراق میں جوہری اسلحہ نہ ہونے کے باوجود جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور موجودگی کا الزام لگا کر عراق کے تیل کی پیداوار پر قابض ہوگئے ایسے ہی افغانستان کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے کہ روس یا چین افغانستان پر نہ ہاتھ صاف کرلیں یہاں بھی اسلحہ کی تجارت کا پہلو اپنی جگہ کام کرتا نظر آتا ہے ایک طرف خود امریکہ اپنے جدید ترین ہتھیاروں کو آزما کر تجربہ کر رہا ہے تو دوسری طرف مد مقابل بھی امریکی اسلحہ ہی استعمال کر رہا ہے امریکہ خود اپنا اسلحہ اپنے مد مقابلوں کو خفیہ ذرائع سے مہیا کر رہا ہے چت بھی اپنی پٹ بھی اپنی، اسی بھاگ دوڑ میں روس بھی پیچھے رہنے والا نہیں ہے وہ بھی اپنا اسلحہ طالبان، داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو خفیہ ذرائع سے فراہم کر رہا ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا یہ بھی ہے کہ امریکہ اور روس کی خواہش ہی نہیں بلکہ پوری پوری کوشش ہے کہ مسلم ممالک ان کی لگائی آگ میں کود پڑیں ایران اپنی جگہ اپنی حفاظت یعنی سیکورٹی کے نام پر اپنی تیاریوں میں مصروف ہے اگر کہیں واقعی قطر اور سعودی عرب میدان جنگ میں آمنے سامنے آجاتے ہیں تو ایران جو ہر ایسی جگہ جہاں سعودی عرب مداخلت کرتا ہے یا اپنی تائید و حمایت کا اظہار کرتا ہے تو ایران سعودی عرب مخالفت میں اس کے مد مقابل کی حمایت میں اس کی پشت پناہی کے لئے آ کھڑا ہوتا ہے یمن اور شام میں دراصل مقابلہ داعش یا حوثیوں سے نہیں بلکہ ایران اور سعودی عرب میں ہو رہا ہے سعودی عرب تو کھل کر میدان میں کود چکا ہے جبکہ ایران حسب سابق پس پردہ رہ کر ہی روس کی معاونت سے اپنا کام کر رہاہے وہ یمن اور شام میں امریکی ارشاد کے مطابق دہشت گردوں کی معاونت کرتا ہے جبکہ روسی ذرائع کے مطابق ایران اپنی ملت کی حفاظت و حمایت کر رہا ہے ایسے ہی خیالات کا سعودی عرب نے بھی اظہار کیا ہے اگر دیکھا جائے تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تھیلے سے بلی باہر آگئی ہے۔
صورت حال جو بھی ہو چاہے خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزے پر نقصان خربوزے کا ہی ہوتا ہے ایرانی بھی مسلمان ہیں اور سعودی اور اس کے حلیف بھی مسلمان ہیں دونوں متحارب فرقے مسلمانوں کے ہیں، دونوں ہی اسلام کے نام لیوا ہیں پھر اختلاف کس بات کاہے پھر کیوں آپس میں دست و گریباں ہیں ہوش کے ناخن کیوں نہیں لیتے اپنے اصل دشمنوں کو کیوں نہیں پہچانتے، کلیسا کے ماننے والے اور تمام دیگر مذاہب کے ماننے والے مسلمانوں سے ہمیشہ سے خوف زدہ رہے ہیں کلیسا ہمیشہ سے مسلم دشمنی میں ہر قسم کے وسائل کا بے دریغ استعمال کرتا ہے جب نائن الیون کا سانحہ ہوا تھا تو اس وقت کے امریکی صدر کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا کہ صلیبی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ اسکا سارا ملبہ امریکی اداروں نے مسلم امت پر ڈال دیا اور برسوں کی تحقیق کے بعد ثابت ہوگیا کہ وہ ساری کارروائی ان کی اپنی ہی تھی صرف اسلئے کہ مسلمانوں پر الزام لگایا جاسکے اور افغانستان پر چڑھائی کی جاسکے امریکہ نے نائن الیون کی آڑ لے کر ہی تو افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی لیکن اسے یہ سودا مہنگا پڑ رہا ہے برسوں گزر جانے کے باوجود افغان اسکے قابو میں نہیں آرہے امریکہ اب تک اپنے اربوں ڈالر افغانستان میں لٹا چکا ہے لیکن پھر بھی افغانستان پر تمام تر کوششوں کے باوجود مکمل طور پر قبضہ حاصل نہیں کر سکا اب اس کی برداشت جواب دیتی جا رہی ہے وہ آہستہ آہستہ پسپا ہو رہا ہے سانپ کے منہ میں چھچھوندر پھنس کر رہ گئی ہے نہ نگلتے بن رہی ہے نہ اگلتے بن رہی ہے اسکی برداشت کہ وہ کیسے ایران سے نمٹے، دراصل ایران بڑی ہوشیاری سے امریکی چالوں کو مات دے رہا ہے امریکہ کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیسے ایران سے نمٹے کیونکہ اگر ایران پر براہ راست حملہ آور ہوتا ہے تو اس کی پشت پناہی کے لئے روس اور کسی قدر چین بھی میدان میں آسکتے ہیں کیونکہ امریکی ایجنسیوں کے مطابق ایران، روس، افغانستان، یمن شام اور ہر اس جگہ جہاں ایرانی ملت کے حامی موجود ہوتے ہیں وہ ان کی حفاظت کے نام پر سامنے آکھڑا ہوتا ہے چونکہ وہ براہ راست میدان عمل میں نہیں آتا اس لئے نہ امریکہ اور نہ اسکے حلیف اس پر کسی طرح ہاتھ ڈال پا رہے ہیں اس کیلئے وہ اپنے حلیف مسلم ممالک کو آگے کردیتا ہے قطر کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کیونکہ اگر جنگ چھڑی تو ایران قطر کی حمایت کرے گا، آنے والے دنوں کیلئے سعودی عرب اور اس کے حلیفوں نے بھی اپنی تیاریاں مکمل کرلی ہیں دوسری طرف قطر اور اس کے حمایتی ایران بھی پوری طرح تیار کھڑے ہیں اللہ مسلم امہ کو شعور بخشے اور توفیق دے کہ وہ کلیسا کی ان سازشوں کو سمجھیں اور عقل سے کام لیتے ہوئے اس آنے والی آفت سے بچیں اللہ ہماری قوم کی پوری مسلم امہ کی ہر طرح سے حفاظت فرمائے، مسلمانوں کی نادانیوں، غلطیوں کو معاف فرمائے، آمین۔

 

.

تازہ ترین