• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی بارڈر سیکورٹی اور جغرافیائی سالمیت خطرات کی زد میں ہے۔افسوس، اس پریشان کن حقیقت پر کسی کی توجہ نہیں ۔ گزشتہ چند ہفتوںسے ہمارے نیشنل سیکورٹی ماحول کی سنگینی ہر سمت سے بڑھ رہی ہے ۔ حال ہی میں بھارت کی طرف سے لاحق خطرے میں اضافہ ہوا ہے ۔ اگرچہ یہ کوئی راز نہیں لیکن اس پر بہت کم بحث کی ضرورت محسوس کی گئی ۔ عموماً لائن آف کنٹرول پرشدید فائرنگ کی جاتی ہے جس کا پاکستان کی طرف سے موثر اور مزید شدت سے جواب دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے مقابلہ برابر کالگتا ہے ۔
تاہم اب بھارتی فورسزاتنی الرٹ کردی گئی ہیں کہ وہ زمینی اور فضائی حملے کے لئے پرتولتی دکھائی دیتی ہیں۔ میں نے جن مغربی ذرائع سے بات کی ،وہ ’’بھارت کی سرحد کی صورت ِحال کونئے اور تشویش ناک، اگلے مرحلے کی طرف لے جانے کی کوشش ‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ ’’اگلا مرحلہ ‘‘ کیا ہوگا، یہ سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ یہ طویل لائن آف کنٹرول کے کم محفوظ کردہ حصوں یا کچھ غیر محفوظ چوکیوں پر حملہ کرکے تیزی سے واپس جانا ہوسکتا ہے ۔ اس کے بعد میڈیا پر شور مچ جائے گا کہ پاکستان کے اندر کارروائی کی گئی ہے ۔
یہ جاننا بھی زیادہ مشکل نہیں کہ اس حرکت کا پاکستان کی طرف سے کیسا جواب دیا جائے گا۔ کسی بھی مہم جوئی کا جواب اس سے زیادہ شدت سے ہی ہو گا،اور جیسا کہ حالیہ کچھ حملوں میں دشمن کی چوکیوں کی تباہی کی فلم بندی کی گئی ، جوابی حملے کے جواز کی گواہی بھی موجود ہوگی ۔ فوجی ترجمان کی حالیہ وارننگز اور آرمی چیف، جنرل باجوہ کا لائن آف کنٹرول کا دورہ اس اہم سیکٹر پر بڑھتے ہوئے تنائو کی نشاندہی کرتے ہیں۔ فوج کا کہنا ہے کہ اگر بھارت نے لائن آف کنٹرول پر مہم جوئی کرنے کی حماقت کی تو اس مرتبہ اس کی تمام غلط فہمی دور کردی جائے گی۔
اس پر پاکستان میں اعصاب پرسکون ہوجانے چاہئیں، سوائے اس خطرے کے کہ اگر بھارت تنائو کو اگلے مرحلے تک لے گیا توایٹمی تصادم کا خطرہ ایک خوفناک حقیقت بھی بن سکتا ہے ۔ پاکستان کے لئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ بھی اپنے وسائل تعینات کردے تاکہ بھارتی کوئی غلطی نہ کربیٹھیں۔ جنگ کی تیاری ایک مہنگا اور تھکا دینے والا عمل ہے ۔ سست روی سے مرحلہ وار جاری رہنے والے جنگوں، جیسا کہ لائن آف کنٹرول پر ہورہا ہے ، میں جانی اور مالی، دونوں طرح کے نقصانات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ بھارت چاہے گا کہ پاکستان لائن آف کنٹرول کے علاوہ مشرق میں انٹرنیشنل بارڈر پر بھی اپنی جنگی تیاریوں کو بڑھائے ۔ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان دہلی کی طرف سے کسی بھی وقت محاذ کو گرم کرنے اور پھیلانے کے خطرے کے لئے تیار رہنے کی الجھن کا شکار رہے ۔ اس کی وجہ سے پاکستان کی توجہ اور وسائل بٹ جاتے ہیں۔
اس اسٹرٹیجی کے مزید اشارے مغربی اور شمال مغربی محاذوں سے بھی ملتے ہیں۔ اس پیش رفت کا پہلا اشارہ کابل میں ہونے والے خوفناک حملے ہیں جن کا الزام افغان حکومت اُن گروہوں پر لگاتی ہے جو مبینہ طور پر پاکستان میں اپنی موجودگی رکھتے ہیں ، اور جن کی پشت پناہی کرنے کا اسلام آباد پر الزام لگایا جاتا ہے ، جیسا کہ حقانی نیٹ ورک۔ سرحدوں کے ان ’’معمولات ‘‘ پر نظر رکھنے والے افراد کہیں گے کہ اس میں نیا کیا ہے؟یہ ردعمل درست قرار دیا جاتا اگر اس مرتبہ کابل میں ہونے والے حملوںپر بہت سے مغربی دارالحکومت کابل کی بات سنتے دکھائی نہ دیتے ۔ کابل کی معمول کی الزام تراشی کی بازگشت اس مرتبہ بیرونی دنیا میں کافی بلند آہنگ تھی ۔
اشرف غنی کی کابل حکومت نے اس کا جواب دینے کے لئے حقانی گروپ سے تعلق رکھنے والے گرفتار شدہ لیڈروںکو پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔اُن افراد کو پھانسی دینے پر حقانی گروپ کی طرف سے مزید سخت رد ِعمل آئے گاکیونکہ وہ اس بات پر تلملا رہے ہیں کہ افغان حکومت حملوں میں ملوث ہونے کے الزام کی اُن کی تردید نہیں سن رہی ۔اس پر وہ رد ِعمل کی شدت بڑھاتے ہوئے افغانستان کے اندر نئے محاذ کھول لیں گے۔ اس کے علاوہ اپنے پاس موجود مغویوں ، جن میں یورپی باشندوں کے علاوہ کچھ امریکی بھی ہیں، کو بھی ہلاک کردیں گے ۔
یہ صورتحال پاکستان کے لئے درحقیقت نازک ہوتی جارہی ہے ۔ واشنگٹن کا اسلام آباد سے حالیہ ابلاغ دوٹوک اور پیغامات یک طرفہ ہیں۔ پاکستان کا موقف سنے بغیر اس سے کہا جارہا ہے کہ وہ حقانیوں کی حمایت سے باز آجائے ، ان کو ہلاک کردے ، اور جو اس کی تحویل میں ہیں،اُنہیں واشنگٹن کے حوالے کردے ۔ پاکستان کی مسلسل یقین دہانی کا واشنگٹن پر کوئی اثر نہیں ہورہا کہ نہ تو حقانی اس کی پناہ میں ہیں اور نہ ہی وہ اُنہیں اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کرسکتا ہے ۔ امریکی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر، ایچ آرمیک ماسٹر نے حالیہ دنوں پاکستانی نمائندوں سے بات کرتے ہوئے اپنا لہجہ خاصا سخت رکھا۔ اُنھوں نے وارننگ دی کہ اگر حقانیوں نے امریکی مغویوں کو ہلاک کیا یا مستقبل میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچایا تو وہ سخت اقدامات اٹھائیں گے ۔ ہمیں اندازہ ہے کہ یہ سخت اقدامات کیا ہوسکتے ہیں۔ وہ سلالہ طرز پر پاکستانی چوکیوں پر حملوں سے لے کر بن لادن کو ہلاک کرنے کے لئے کی گئی کارروائی جیسے فضائی آپریشنز بھی ہوسکتے ہیں۔ اس سے بھی بدتر، وہ ’’ڈرٹی بم ‘‘ بھی استعمال کرسکتے ہیں جن کی افغانستان کے اندر ریہرسل کی جا چکی ہے ۔ اس ریہرسل کے زمین پر تباہ کن اثرات سامنے آئے ہیں۔
حالیہ دنوں امریکی ڈرونز کی پاکستانی حدود کی خلاف وزری میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے ۔ ہنگو ڈرون حملہ اس کی صرف ایک مثال ہے ۔ بلوچستان میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران متعددبار ڈرونز پاکستانی فضائی حدود میں منڈلاتے دکھائی دیئے ۔ ایک واقعہ میں، جس سے بہت کم لوگ واقف ہیں، پاکستانی طیارے نے امریکی ڈرونز کو واپس جانے پر مجبور کردیا۔ امریکی نظام کی فعالیت سے جانکاری رکھنے والے ان معاملات پر امریکی انتظامیہ کی اعلانیہ پالیسی کا حوالہ دیں گے اور پھر اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں گے کہ کیا واشنگٹن صرف بلف کررہا ہے یا دھمکیوں اور ڈرونز کی بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزی کے پیچھے کوئی خاص پالیسی بھی کارفرما ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنی بیان کردہ پالیسی کے مطابق نہیں چل رہی ۔افغانستان کے کیس میں خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پیش رو ئوں کے برعکس تمام ضروری آپریشن کے لئے پنٹاگون اور سی آئی اے کو بااختیار کردیا ہے ۔اب وہ فیصلہ کرنے اور اس پر عمل درآمد میں آزاد ہیں۔ اُنھوں نے افغانستان کے لئے امریکی فوجیوں کی تعداد میں چار ہزار کے اضافے کی بھی منظوری دے دی ہے ۔ مغربی سفارت کاروں کے نزدیک ٹرمپ انتظامیہ کی اس پالیسی کا رخ افغانستان سے زیادہ پاکستان کی طرف ہے ۔ یہ فوجی دستے پاکستان پر حملہ کرنے والی فورسز کی پشت پناہی کرسکتے ہیں۔پاکستان سے بڑھتے ہوئے امریکی مطالبات اور ان دونوں کے درمیان الفاظ کی جنگ اور رویوں میں آنے والی غیر معمولی شدت کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مغربی اور شمال مغربی سرحدوں کی صورت ِحال کسی طور معمول کے مطابق نہیں ۔
اس خطرے کے ساتھ ساتھ داعش کے پاکستانی سرحد کے قریب افغان علاقے، تورا بورا پر قبضے کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ مشرق ِوسطیٰ میں داعش کی فعالیت کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی علاقے پر قبضہ کرکے اُسے مزید حملوں کے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے سفاکانہ ایکشن کے ذریعے سرحدوں کو بے معانی بنا دیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، پاکستان کی سعودی عرب کے ملٹری الائنس میں شمولیت نے اس کے ایران کے ساتھ تعلقات دائو پر لگادیئے ہیں۔ داعش جیسے گروہ اپنے مخصوص نظریات کو استعمال کرتے ہوئے اسلام آبادکے لئے ویسی ہی پیچیدہ صورت ِحال پیدا کردیں گے جیسی وہ افغانستان میں پیدا کرچکے ہیں۔ داعش کے ایران کے اندر حملے ایک طویل اور خونی جنگ کا پیش خیمہ ہیں جس کی شدت پاکستان کے باقی رہ جانے والے علاقائی استحکام کو متاثر کرسکتی ہے ۔
انتہائی بھیانک صورت ِحال وہ ہوگی جب چہارسمت سرحدوں کی صورت ِحال بیک وقت دھماکہ خیز ہوجائے۔ اُس صورت میں پاکستان حقیقی خطرے کی زد میں ہوگا۔ امریکہ کی طرف سے کوئی اسٹرائیک یا ایران میں کیا گیا کوئی بڑا حملہ، جس کا الزام پاکستان میں موجود گروہوں پر لگتا ہو، ملک کو قومی سطح کے بحران سے دوچار کرسکتا ہے۔ انڈیا، افغانستان، ایران اور امریکہ کا طرز ِعمل ہر حوالے سے دھمکی آمیز ہے ۔ ان خطرات کی نشاندہی کرنے والے واقعات روزانہ کی بنیاد پر، تیزی سے رونما ہورہے ہیں۔ ہم ایک ایسا ملک ہیں جس کی سرحدوں پر ناگہانی خطرات منڈلارہے ہیں۔
دوسری طرف ہم ایک ایسا ملک ہیں جس کی داخلی صورت ِحال نے تمام نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔ یہ وہ ملک ہے جس میں بحث کا موضوع سیکورٹی چیلنجز کی بجائے جے آئی ٹی کی تحقیقات اور تحفظات، میڈیا کے جام ِ جمشید کی خسروانہ بصارت، اسٹیبلشمنٹ کا مبینہ جھکائو، جج صاحبان کا رویہ اور تبصرے، عمران خان کے عزائم، نواز شریف کا بچائویا اس کے برعکس، اور آصف زرداری کی بچھائی ہوئی سیاسی شطرنج کی بساط ہے۔ یہاں توجہ کا ارتکاز قومی مستقبل کی بجائے اپنے اپنے سطحی، بلکہ احمقانہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر ہے۔ ہمیں جدید تاریخ میں کسی ایسے ملک کی نظیر نہیں ملتی جسے ہماری طرح بے پناہ خطرات نے گھیرا ہوا ہو اور اس کی قیادت ریت چھاننے میں مصروف ہو۔

تازہ ترین