• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوفیاء، مفکرین اور تاریخ دان اپنے اپنے انداز میں کہتے آئے ہیں کہ انسانی اعمال و افعال کسی بڑے نظام کی لامنتہا طاقتوں کا اظہار ہوتے ہیں۔ یعنی انسان کی اپنی شعوری حرکات و سکنات اس کے بس سے باہر ہوتی ہیں۔کارل مارکس جیسے مفکر اپنے مادی جدلیا ت کے نظریے کے تحت یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی عہد کے مادی حالات اس زمانے کے انسانوں کی تاریخی جہت طے کرتے ہیں۔ مثلاً سرمایہ داری نظام کی آمد سے جاگیرداری دور کے سارے انداز بدل جاتے ہیں۔ بدلتے ہوئے معروضی حالات میں انسان بے بس ہوتا ہے:یعنی سرمایہ داری دور کی آمد کے بعد کوئی بھی جاگیرداری دور کی زندگی نہیں گزار سکتا۔ گویا کہ انسان تاریخ کے ہاتھوں میں کھلونا ہے۔ صوفیاء کرام اور فلسفی کائناتی نظام کے ہمہ جہت غلبے کو دنیا کے ہر اظہار میں دیکھتے ہیں۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے وہ سب کی موضوعی خواہش سے آزاد ہے: تاریخ اپنے انداز میں آگے بڑھ رہی ہے اور پاکستان کا نظام اپنے مخصوص طریقے سے بدل رہا ہے۔ لیکن جب وزیر اعظم نواز شریف کہتے ہیں کہ کٹھ پتلیوں کا نظام مزید نہیں چل سکتا تو ان کا اشارہ پاکستان کے مخصوص اداروں کی طرف ہوتا ہے جو ان کے خیال میں ان کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ وہ اپنے عدالت میں پیش ہونے کو بہت بڑا کارنامہ قرار دیتے ہیں جبکہ ان کے مخالف انہیں مجبور محض سمجھتے ہیں۔
تاریخی سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو شریف خاندان کا احتساب کوئی نیا نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں تقریباً ہر آنے والے حکمرانوں نے اپنے پیشروئوں کا احتساب کیا ہے۔ پاکستان میں تو ایک وزیر اعظم کو پھانسی بھی دی گئی۔ بینظیر بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کا مسلسل احتساب ہوتا رہا ہے۔ شریف خاندان کا یہ دعویٰ کہ ان کا ہر دور میں کڑا احتساب ہوا ہے ادھورا سچ ہے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی فیکٹریاں قومی ملکیت میں لی تھیں تو یہ کوئی انوکھا کام نہیں تھا: اس دور میں سینکڑوں فیکٹریوں کو قومیایہ گیا تھا۔ بینظیر بھٹو کے دور میں شریف خاندان کے احتساب سے ان کی دولت اندوزی پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ مشرف دور میں شریف خاندان مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ پھر بھی محلاتی زندگی گزارتے رہے اور جلا وطنی کے بعد پہلے کی طرح دوبارہ سے ارب پتی ہی رہے۔ شریف خاندان کے پورے سفر نامے کو دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی طویل حکمرانی کے دور میں مشکل اوقات آتے رہے ہیں لیکن یہ تو ہر حکمراں کے زندگی کی تاریخ ہے۔ پاکستان میں پچھلی تین چار دہائیوں میں (بھٹو کے بعد) جو حلقے بھی احتساب کی زد میں آئے ہیں ان کی قسمت پر رشک آتا ہے:تقریباً ہر احتساب زدہ سیاست دان ارب پتی ہے۔ اگر بھٹو کا اتفاق فونڈری کو قومی ملکیت میں لینا شریف خاندان کا احتساب تھا تو ضیاء الحق کے دور میں اس کے معاوضے میں جو ملا اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا:شریف خاندان چھوٹے سرمایہ داروں کی صف سے نکل کر بڑے سرمایہ داروں کے مختصر گروہ میں شامل ہو گیا۔ چلئے شریف خاندان تو پہلے سے سرمایہ دار تھا جسے ضیاء الحق کے دور میں پر پرزے پھیلانے کا موقع ملا لیکن پیپلز پارٹی کی تو ایسی کوئی تاریخ نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی تو فوج کے عتاب کا نشانہ بنتی رہی لیکن یہ کیسے ہوا کہ اس معتوب پارٹی کی پوری لیڈرشپ ارب پتی بن گئی۔ یہ امر اپنی جگہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور اس کے رہنماؤں نے ضیاءالحق کے دور میں بہت صعوبتوں کا سامنا کیا لیکن 1988 کے بعد اس پارٹی کے رہنماؤں نے شریف خاندان کے ماڈل کو اپناتے ہوئے دولت کے انبار لگانے شروع کر دئیے:اگر آصف علی زرداری نئی پیپلز پارٹی کا استعارہ ہیں تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا یہ سلسلہ 1988سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ پیپلز پارٹی ہی کیا سب سیاسی حکمراں پچھلی تین دہائیوں میں ارب پتی بن گئے ہیں۔ عمران خان سمیت کسی ارب پتی بننے والے سیاست دان کے پاس رسیدیں نہیں ہیں جس سے ان کی نئی دولت کے جائز ہونے کا ثبوت مل سکے۔ اس لئے کسی بھی امیر خاندان پر مشترکہ تفتیشی کمیٹی بٹھا دی جائے، نتیجہ صفر ہو گا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں پچھلی تین چار دہائیوں میں بے انتہا دولت پیدا ہوئی ہے اور اس سے لاکھوں لوگ مستفید ہوئے ہیں۔ ایک پورا نیا دولت مند طبقہ پیدا ہوا ہے جس میں سیاسی حکمرانوں کے علاوہ نوکر شاہی اور ریاست کے دوسرے طاقتور اداروں کے لوگ بھی شامل ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ سلسلہ پاکستان تک محدود نہیں ہے :گلوبلائزیشن کے بعد پوری دنیا میں ایک امیر طبقہ پیدا ہوا ہے جس کی دولت کی قانونی حیثیت مشکوک ہے۔ روس، چین اور ہندوستان جیسے ملکوں کے ارب پتی بھی پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پانامالیکس میں پاکستان کا شریف خاندان تو ایک معمولی سا حصہ تھاجبکہ ان دستاویزات میں پوری دنیا کے امیر اور حکمران طبقات شامل تھے۔ غرضیکہ ایک خاص عہد میں نئے امیر بننے والوں کی ایک کھیپ ہے جس میں سیاسی اداروں کے لوگ بھی شامل ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کے احتساب سے کوئی بہتر نظام تخلیق کیا جا سکتا ہے؟ بظاہر ایسا نظر نہیں آتا۔پاکستان میں ریاست کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے اس کے اداروں کی ترتیب نو کی ضرورت ہے۔ ویسے تو بہت سے تاریخ دان پاکستان کی تاریخ کو کٹھ پتلیوں کا تماشا سمجھتے ہیں: یعنی اس وقت تماشے میں کٹھ پتلیوں کو اشارے انگریز حکمرانوں سے آ رہے تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں عسکری ادارے سب سے زیادہ طاقتور تھے اور بہت حد تک کٹھ پتلیوں کے تماشے بھی انہی کے اشاروں سے ہوتے تھے۔ شروع شروع میں نوکر شاہی نے اس تماشے کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوشش کی لیکن ایوب خان نے اسکندر مرزا کو فارغ کرکے یہ کھیل ختم کردیا۔ اس کے بعد کی تاریخ میں اگر کسی سیاست دان نے تماشے کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوشش کی تو اس کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ پچھلی تین چار دہائیوں میں کٹھ پتلیوں کی ڈور ہلانے والوں کو سیاست دانوں کے امیر ہونے پر اس وقت تک کوئی خاص اعتراض نہیں ہے جب تک ان کے مفادات کو زک نہ پہنچائی جائے۔ اسلئے بہتی گنگا میں سب نے ڈبکیاں لی ہیں اور اب احتساب کرے تو کون کرے؟ غرضیکہ پتلیوں کا تماشا تو ہو رہا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ پتلی کون ہے اور ڈور کس کے ہاتھ میں ہے۔

تازہ ترین