• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کچھ خواب دیکھے لیکن شعور جب غم ذات کی سطح سے بلند ہوکر غم کائنات میں ضم ہوتا ہے تو خواب دیکھنے کے لئے نیند کا ہونا ضروری نہیں رہتا۔ چند ممالک پر مشتمل یورپین یونین اب 28ممالک پر مشتمل ایک بلاک ہے، دس نئے ممبرز قبرص، چیک ری پبلکس، ایسٹونیا، ہنگری، لٹویا، لتھوانیا، مالٹا، سلواکیہ اور اسٹوڈینیا نے ای یو (یورپین یونین) میں شامل ہوکر اسے پینتالیس کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل اقتصادی اور سیاسی گروپ میں تبدیل کردیا ہے ایک ایسا گروپ جس سے ابھی نہیں تو آنے والے وقت میں امریکہ جیسا ملک ضروری خوف زدہ رہے گا۔ اس بلاک کی ایک متحدہ شناخت تشکیل دی گئی ہے کہ ہر جغرافیہ کی اپنی شناخت ہوتی ہے اس کی ایک پارلیمنٹ ہے ایک آئین ہے اس پارلیمینٹ اور آئین کو اپنی موجودہ شکل میں آتے آتے قریباً 85برس لگے یں کچھ لوگوں نے ایک خوبصورت خواب دیکھا تھا یورپ کو خوبصورت سے خوبصورت ترین بنانے کا ۔ یہ اپریل 1951 کی بات بنے فرانس، جرمنی ، اٹلی، لکسمبرگ بلجیم اور بھوتوں کا دیس ہالینڈ نے اسٹیل اور کوئلے کی مشترکہ مارکیٹ وجود میں لانے کے لئے یورپین کول اسٹیل کمیونٹی (ECSC)کی بنیاد رکھی یہی بنیادی اینٹ مارچ 1957میں معاہد روم کے تحت یورپین اکنامک کمیوٹی(EEC)بن گئی جس کا مقصد رفتہ رفتہ زریع اور صنعتی مارکیٹ کو عالم وجود میں لانا تھا۔ جولائی 1967میں اس EECنے اپنی ایک ای E کو خیر آباد کہتے ہوئے صرف ای سی یعنی یورپین یونین رہ گئی۔ 1973 میں ہمیشہ آخری ریل کا ڈبہ پکڑنے والے برطانیہ اور ڈنمارک و آئر لینڈ اس کے ممبر بن گئی۔ چھ سال کے بعد مارچ 1979 مشترکہ کرنسی کی تشکیل کے لئے پہلا قدم یورپین مانیٹری سسٹم لیا گیا۔ دو سال بعد جنوری 1981میں یونان یورپین کمیونٹی کا دسواں ممبر بن گیا جنوری 2002میں ای یو کے بارہ ممالک میں ’’یورو‘‘ کرنسی کے طور پر قبول کرلی گئی اور آج جون 2004میں یورپ کا سب سے اہم واقعہ اس کے انتخابات ہیں۔ یورپین یونین میں منعقدہ عام انتخابات میں رائے دہندگان کا رجحان انتہائی حیرت انگیز رہا۔ عوام نے برسراقتدار پارٹیوں کو تباہ کن شکست سے دوچار کردیا ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نے شعوری یا لاشعوری طور پر اپنا حق استعمال نہ کرکے مزید حیرت انگیز رویہ کا اظہار کیا۔ اور جن افراد نے اپنے اس حق کا استعمال کیا انہوں نے اپنی ان برسراقتدار حکومتوں کو سزا دی جنہوں نے عوام کی مرضی کے خلاف عراق پر امریکی حملے کی تائید یا مدد کی تھی۔ علاوہ ازیں حکومتوں کی معاشی و سماجی پالیسیوں پر بھی عوام نے حکمرانوں کے کان کھینچتے ہوئے مخالفانہ رائے کا اظہار کیا۔ جہاں تک کمیونسٹ ممالک کا تعلق ہے جنہوں نے یورپی یونین میں شرکت کی وہاں کے عوام نے ایسے رہنمائوں کو مسترد کردیا کہ ان ممالک میں بےروزگاری، سماجی مسائل، مہنگائی اور غربت نے کمیونسٹ حکومتیں ختم ہونے کے بعد اپنے پھن پھیلا رکھے ہیں۔ مشرقی یورپ کے عوام اپنے اس غصے کا اظہار یورپین یونین پر کررہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محض ایک ماہ کے بعد ہی مشرقی یورپ کے عوام نے یورپین یونین میں شرکت کی مخالفت شروع کردی تھی اس ناراضگی کے اظہار کا سب سے بڑا ثبوت عام میں انتخابات میں حکمرانوں کے خلاف کھل کر برہمی کا مظاہرہ تھا۔ یورپی یونین میں ’’یوم مئی‘‘ کو شرکت کرنے والے کمیونسٹ ممالک نے مغربی یورپ کے ’’یورپی بھائی چارے‘‘ کے جذبے کو ٹھکرادیا۔ برطانیہ میں یو کے انڈی پنڈنس پارٹی نے حیرت انگیز طور پر 17فیصد اضافہ کیا اس وقت بدترین شکست سے دو چار کردیا تھا IPپارٹی نے 9اضافی نشستیں حاصل کرلیں۔جو کہ ٹونی بلیئر کیلئے ایک درد سر ثابت ہوا اور پھر یورپ کے سب سے بڑی آبادی والے ملک جرمنی میں رائے دہندگان نے چانسلر شروڈر کی سوشل ڈیمو کریٹ پارٹی کا تیا پانچا کر دیا۔ اور اسے بری طرح شکست سے دوچار کر دیا تھا اور سوشل ڈیمو کریٹ کے حامیوں کو صرف22 فیصد ووٹ مل سکے جو کہ اپوزیشن پارٹی کرسچین ڈیمو کریٹ کے نصف برابر بھی نہیں ہیں۔ اسی طرح فرانس کے صدر جیک شیراک کی پارٹی شکست سے ہمکنار ہو کر دوسرے نمبر پر رہی، ہالینڈ میں برسر اقتدار حکمرانوں کو بھی شکست سے کوئی نہ بچا سکا،اسکی ایک وجہ ان کی عدم دلچسپی بھی رہی کیونکہ ان دنوں فٹ بال کی وبا پھیل رہی لوگ بھاگ سارا دن اور رات ٹی وی پر فٹ بال میچ سے لطف اندوز ہوتے رہے تھے۔ اسپین اور یونان کی سوشلسٹ حکومتیں اس شکست سے بال بال بچ گئیں۔
شاید اسکی ایک وجہ اسپین کا عراق سے اپنی فوجوں کو واپس بلانا بھی رہا ہے۔ مجموعی طور پر یورپین یونین کے 350ملین ووٹروں کے ووٹ استعمال کرنے کی شرح 45.2فیصد رہی اور الیکشن کا ہنگامہ چار روز تک جاری رہا تھا۔
یورپ کے دوسرے ممالک میں اٹلی کی حکمران پارٹی 25فیصد عوامی تائید کے نشانے کو حاصل نہ کر سکی اور اٹلی کے وزیر اعظم سلوبوباد سکونی کو یورپین پارلیمینٹ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن ان کے برسر اقتدار اتحاد کو دوسری یورپی حکومتوں کی طرح یہ تذلیل برداشت نہیں کرنی پڑی حالانکہ براوسکونی کی اپنی پارٹی کو نقصان اٹھانا پڑا تاہم ان کی تین حلیف پارٹیوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جبکہ اپوزیشن پارٹیوں نے بھی بہتر نتائج حاصل کئے۔ نتائج کے باعث اتحادی جماعتوں میں اعتدال پسندی کا موقف مستحکم ہوا ۔
سویڈن میں نئی یورسپٹک پارٹی نے حیرت ناک وبہترین انتخابی مظاہرہ کیا ۔پولینڈ جو پورپی یونین میں چند برس قبل شامل ہوا تھا یہاں کی بر سر اقتدار ڈیمو کریٹ الائنس کو شکست ہو گئی ،اسی طرح سابق کمیونسٹ ملک چیک جمہوریہ میں بھی بر سر اقتدار پارٹی کو انتخابی شکست سے دوچار ہونا پڑا، جمہوریہ چیک میں وزیر اعظم ولادیمر اسپیڈلاکو اپوزیشن کی دائیں بازو کی پارٹیوں نے شکست دے دی۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے اسپین کی نئی سوشلسٹ حکومت ان چند ایک برسر اقتدار پارٹیوں میں شامل ہے جنہوں نے اپنے حریفوں کو پچھاڑ دیا تھا اس کے برعکس یونان میں قدامت پسندی حاوی رہے۔
یورپی یونین کے ان 25ممالک کے اس بھائی چارے کے انتخابات کی ایک خوبی اور خصوصیت یہ رہی کہ عوام نے عراق پر امریکہ کے حملے کی تائید کرنے والی حکومتوں کو سزا دی وہیں عراق سے فوجیں واپس طلب کرنے والے ممالک کی حکومتوں ک کامیابی دلائی۔ 28یورپین یونین کی جملہ 750نشستوں میں دائیں بازو کی پارٹیوں کو 247نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ ان انتخابات میں عراقی تیل کی سیاست ‘‘کا مسئلہ عوام کے ذہنوں پر چھایا رہا اور ہالینڈ کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ مزید 8ماہ تک اپنی افواج کو عراق میں رکھے گی۔
حرف آفر کے طور پر یہ بات قابل غور ہے کہ یورپی یونین خطے میں آباد لوگوں سے مسائل کے حل کیلئے ہتھیاروں کے آپشن پر زور نہیں دیا یہ وقت ہے کہ سارک کے دو اہم ترین ممالکم یعنی بھارت اور پاکستان اپنے تصفیہ طلب مسائل کو حل کرنے اور یورپی یونین کی طرز پر کوئی بلاک بنانے کیلئے مزید تاخیر نہ کریں۔
نقشہ اٹھا کے کوئی نیا شہر ڈھونڈیئے
اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہو گئی

تازہ ترین