• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانچ جون کو سعودی عرب سمیت چھ عرب ممالک مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین، لیبیا اور یمن نےقطر پر خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے ساتھ ساتھ عرب فوجی اتحاد سے بھی خارج کردیا جس کے نتیجے میں کشیدگی کا شکار خطہ مشرقِ وسطیٰ سنگین صورت حال اختیار کرگیا۔
ان چھ متعلقہ ممالک نے قطر پر اخوان المسلمون کے علاوہ دولت اسلامیہ (داعش) اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی حمایت کرنے کا الزام لگایا جبکہ سعودی عرب نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرات سے بچنے اور قومی سلامتی کے پیش نظر قطر کے ساتھ اپنی سرحدوں کو بھی بند کردیا۔ قطر کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ خلیجی ممالک نے بے بنیاد الزامات لگا کر تعلقات ختم کیے اور اس اقدام کا کوئی قانونی جواز نہیں، ان اقدامات کا مقصد صرف ہم پر اپنی مرضی کی پالیسیاں مسلط کرنا ہے، جو بطور ریاست قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔ بحرین نے قطریوں پر دہشت گردی کی حمایت اور بحرین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا۔ اس نے قطری شہریوں کو ملک چھوڑنے کے لئے 14روز کا وقت دیا ہے۔ قطر کے خطے کی دیگر عرب ریاستوں اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات گزشتہ کچھ برسوں سے تنائو کا شکار چلے آرہے تھے۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں قطر کو ایران اور اخوان المسلمین جیسی اسلامی تحریکوں کے انتہائی قریب سمجھتی ہیں۔اس سے قبل 2014ء میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے قطر سے اپنے اپنے سفرا کو واپس بلا لیا تھا جس کی وجہ قطر کی طرف سے اخوان المسلمین کی حمایت تھی۔ اس گروپ کو بعض خلیجی ریاستوں کے شاہی خاندان اپنے اقتدار کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔
ترکی نے سات ممالک کیطرف سے قطر کیساتھ سفارتی تعلقات کو منقطع کرنے کے فیصلے پر رد عمل ظاہر کیا ہے۔ وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے ترکی کا دورہ کرنے والے جرمنی کے وزیر خارجہ گبریل کیساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ قطر کیساتھ مسائل کو مذاکرات کے ذریعے پر امن طریقے سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے۔ ہم حالات کو معمول پر لانے کے لیے ہر ممکنہ کوششیں کریں گے۔
ترک صدرایردوان نے اس سے قبل بیان دیتے ہوئے قطر پر پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے قطر کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دینے کا اعلان کیا تھا۔صدر ایردوان نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ٹیلی فونک ڈپلومیسی بھی کی۔ انہوں نےواضح کیا کہ قطر کو تنہا کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں اور ترکی خطے میں پیدا ہونے والے اس بحران کے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔ترک صدر بحران پیدا ہونے کے بعد سے سفارتی رابطوں میں بھی مصروف ہیں اور انہوں نے اس سلسلے میں سعودی عرب اور قطر کے حکمرانوں اور امیر کویت سے ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ایردوان نے قطر میں قائم ترکی کے ایک فوجی اڈے پرپانچ ہزار ترک فوجیوں کی تعیناتی کی منظوری کے ساتھ قطر سے ایک اور معاہدہ بھی کیا ہے جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان افواج کے تربیت کے لئے تعاون اور مشترکہ فوجی مشقیں کی جائیں گی۔ترکی کی جانب سے یہ دونوں اقدامات ایسے وقت کیے گئے ہیں جب قطر کو خطے کے بیشتر عرب ملکوں کی جانب سے سخت سفارتی اور تجارتی بائیکاٹ کا سامنا ہے۔ صدارتی محل سے جاری کردہ تحریری اعلامیہ میں اس بات کی یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ یہ قوانین، دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے ’’جنڈارمیری تعلیم و تربیت تعاون‘‘ اور ’’قطر میں ترک فوجیوں کی تعیناتی‘‘ معاہدوں کو تشکیل دیتے ہیں۔اس دائرہ کار میں 5ہزار ترک فوجی قطر میں تعینات کیے جائیں گے۔ دونوں ملک اس دائرہ کار میں ملکی سلامتی، اسمگلنگ اور منظم جرائم کے خلاف جدوجہد، سماجی واقعات کے خلاف جدوجہد اور فوجیوں کے بعض امور کی ٹریننگ کے حوالے سے باہمی تعاون کو مزید فروغ دیں گے۔
سفارتی پابندیوں کے شکار ملک قطر کی جانب ترکی کےدوستی کا ہاتھ بڑھانے پر امیر تمیم بن حماد الا ثانی نے صدر ایردوان کا شکریہ ادا کیا۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ترکی زبان میں شکریہ کا پیغام دینے والے امیر قطر نے اپنےدورہ ترکی کے مناظرکی ایک ویڈیو کلپ کو بھی جگہ دی ہے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے پیر کو قطر پر اسلام پسند جنگجوئوں کی حمایت اور ایران کے ساتھ قریبی تعلقات کا الزام عائد کرتے ہوئے سفارتی تعلقات منقطع اور زمینی، فضائی اور سمندری رابطے اور تجارت معطل کردی تھی۔ترک صدر رجب طیب ایردوان نے خلیجی ممالک کی جانب سے قطر کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے سے متعلق اقدامات کو ’اسلامی اقدار‘ کے منافی قرار دیا ہے۔ ایردوان کا یہ بیان اس موضوع پر کسی مسلم رہنما کا سخت ترین بیان ہے۔ انقرہ میں اپنی جماعت آق پارٹی کے ارکان سے خطاب میں رجب طیب ایردوان نے کہاکہ ’’قطر کے معاملے میں ایک نہایت بھیانک غلطی کی گئی ہے۔ ایک قوم کو ہر طرح سے تنہا کرنے کے اقدامات غیرانسانی اور اسلامی اقدار کے منافی ہیں۔ یہ تو یوں ہے کہ قطر کے لیے سزائے موت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’قطر نے ترکی کے ساتھ مل کر دولتِ اسلامیہ (داعش) جیسی شدت پسند تنظیم کے خلاف انتہائی ٹھوس موقف اپنا رکھا ہے۔ قطر کو نشانہ بنانے کی کوشش کسی کے مفاد میں نہیں۔‘‘ یہ بات اہم ہے کہ ترکی نے موجودہ صورت حال میں بھی خلیجی ممالک کے ساتھ ساتھ قطر کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر رکھے ہیں۔ ترکی اور قطر دونوں اخوان المسلمون کی حمایت کرتے ہیں، جب کہ یہ دونوں ممالک شام میں بشارالاسد کی حامی فورسز کے خلاف لڑنے والے حریت پسندوں کی معاونت بھی کرتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں حماس کے بارے میں ترکی اور قطر میں ایک جیسے نظریات پائے جاتے ہیں۔

تازہ ترین