• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چمپئنز ٹرافی 2017کے فائنل میں پاکستان کے ہاتھوںانڈیا کی تاریخی اور شرمناک شکست کے بعد پورے بھارت میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔پاکستان میں عوام بھنگڑے ڈال رہے ہیں جبکہ بھارت میں سوگ کا سماں ہے۔فائنل میچ سے پہلے انڈین میڈیا پاکستان کرکٹ ٹیم کے خلاف آسمان سر پر اُٹھائے ہوئے تھا، گرین شرٹس کمزوراور بھارتی ٹیم کو ’’ تگڑا ‘‘ کہنے والابھارتی میڈیا پاکستان کی شکست کے بارے میں بلند و بانگ دعوے کر رہا تھا،بھارتی سیاستدان، اداکار، کاروباری برادری سمیت انتہا پسند ہندو پاکستان کو شکست دینے کی پیش گوئیاں کر رہے تھے، بھارتی اداکار رشی کپور نے تو بد تمیزی کی حد یں پھلانگتے ہوئے اس فائنل کے بارے میں بیان دیتے ہوئے انڈیا کے حوالے سے کہا کہ باپ باپ ہوتا ہے اور بیٹا،بیٹا ہوتا ہے، وہ سر عام کہہ رہا تھا کہ ہم باپ ہیں اور پاکستان بیٹا ہے، اور بیٹا فائنل جیتنے کے بارے میں نہ سوچے۔ واہگہ بارڈر پر انڈیا کے ایک سستے کامیڈین نے آکر گانا گایا ’’سرفراز سرفراز رونا نہیں‘‘ اور پاکستانی عوام کو مخاطب کرکے بولا کہ نئے ٹیلی وژن خرید لو کیونکہ پُرانے ٹوٹنے والے ہیں، دعوے یوںکئے جا رہے تھے کہ جیسے فائنل سے پہلے ہی بھارت ٹرافی جیت گیا ہو، لیکن فائنل ہوا، دُنیا نے دیکھا کہ بھارتی غرور خاک میں مل گیا، پاکستانی کھلاڑیوں نے بھارت کے بلند و بانگ دعوئوں کو زمین بوس کر دیا، اور ایسی شرمناک شکست سے دوچار کیا کہ جس کی گونج بھارتی عوام کو کئی صدیوں تک سنائی دیتی رہے گی۔پاکستانی کھلاڑیوں نے اپنے کھیل سے ثابت کیا کہ وہ باپ ہیں، اور سرفراز نے رونا نہیں بلکہ رُلانا تھا اور سرفراز نے ایسا کر دکھایا، پاکستانی شاہینوں نے ’’اوول کرکٹ گرائونڈ‘‘ میں بھارتی کھلاڑیوں کو نوچ ڈالا۔ سرفراز کی قیادت میں پاکستانی کھلاڑیوں کی ٹیم نے قوم کو بھی سرفراز کر دیا۔ پاکستانی ہیروز جب سوہنی دھرتی پر اُترے تو عوام نے اُن کا شاندار استقبال کیا، انہیں پھولوں سے لاد دیا گیا، انہیں پولیس بینڈ نے سلامی دی، ہیروز کے گھروں پر قومی پرچم لہرا دیئے گئے، کیونکہ ان ہیروز نے جہاں پاکستانیوں کو نئے ٹیلی وژن لینے کے مشورے کو غلط ثابت کیا تھا وہیںبھارتیوں کے دعوئوں اور غرورکو بھی مٹی میںملا دیا تھا۔بھارتی عوام کے لٹکے منہ دیکھ کر یہ شعر بار بار یاد آ رہا تھا۔
کل دھوپ کے میلے سے خریدے تھے کھلونے
جو موم کا پُتلا تھا وہ گھر تک نہیں پہنچا
پاکستان کرکٹ ٹیم کی جیت میں ماہ صیام کی برکتوں اور پاکستانیوں کی دعاؤں کا حصہ بھی شامل ہے، 1992کا ورلڈ کپ رمضان میں جیتا گیا تھا اور چیمپئنز ٹرافی بھی رمضان المبارک میں ہی ہمارا مقدر بنی، یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عید سے پہلے عید کا بہترین تحفہ اور پاکستانی عوام کو بڑی مدت کے بعد کوئی خوشخبری ملی ہے۔ پاکستان کی اِس جیت نے وطن عزیز سمیت دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو خوشی سے جھوم اُٹھنے پر مجبور کر دیا ہے، یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی کمیونٹی بھارت کی آخری وکٹ گرتے ہی قومی پرچم سمیت گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر نکل آئی،یورپ کی فضائیں پاکستان زندہ باد اور جیوے جیوے پاکستان کے نعروں سے گونج اُٹھیں، مٹھائیاں تقسیم کی گئیں، بھنگڑے ڈالے گئے اور پاکستان کرکٹ ٹیم کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ یورپی ممالک کی مقامی کمیونٹی بھی پاکستانیوں کی اِس خوشی میں شامل تھی۔ چمپینز ٹرافی جیتنے والی ٹیم کے تمام کھلاڑی نوجوان اور تازہ دم ہیں، اِن میں بیشتر کا تعلق پاکستان سپر لیگ میں پرفارمنس دکھاکر آگے آنے والوں کا ہے۔ حسن علی، شاداب خان، فخر زمان، رومان رئیس، بابر اعظم، عماد وسیم اور دوسرے وہ کھلاڑی جنہوں نے اِس ٹورنامنٹ میں بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا وہ سب پاکستان سپر لیگ میں اپنا لوہا منوا کر یہاں تک ’’میرٹ‘‘ پر پہنچے ہیں جس کے لئے ہم پی ایس ایل کا انعقاد کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے پاکستان کو ایسے شاہین دیئے جو ٹرافی لے اُڑے۔ پاکستان کے آرمی چیف نے ٹرافی جیتنے والی پاکستانی ٹیم کو اپنی طرف سے عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کا انعام دیا اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم پاکستان، صدر پاکستان اور وزرا اعلیٰ سمیت تمام صوبائی اور وفاقی وزرا نے قومی ٹیم کو خراج تحسین پیش کیا ہے، پاکستانی عوام نے شاہینوں کو نقد اور رہائشی پلاٹوں جیسے انعامات سے نوازا ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہوگی کیونکہ زندہ قومیں اپنے ہیروز کو ایسے ہی خراج تحسین پیش کرتی ہیں۔پاکستان کرکٹ ٹیم کی اس جیت سے پاکستان میں کرکٹ کو مزید فروغ ملے گا، نیا ٹیلنٹ سامنے آئے گا،نوجوانوں میں کرکٹ کا جنون مزید بڑھے گا اور ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کی کرکٹ ٹیمیں بھی پاکستان میں کرکٹ کھیلنے آئیں گی۔بگ تھری کا پریشر، دوسری ٹیموں کا پاکستان آکر نہ کھیلنا، کرکٹ بورڈ کے پاس فنڈز کی کمی، کرکٹ میں سیاسی مداخلت اور کرکٹ بورڈ میں عہدوں کی جنگ اور کھینچا تانی کے باوجود قومی کھلاڑیوں نے جس طرح اپنے ’’ مورال ‘‘ کو بلند رکھا وہ قابل ستائش عمل ہے۔چمپینز ٹرافی کی جیت نے جہاں پاکستان میں کرکٹ کے فروغ کے دروازے کھولے ہیں وہیں، پی ایس ایل اور قائد اعظم ٹرافی سمیت دوسرے ملکی ایونٹس کے انعقاد کو بھی یقینی بنایا ہے، اِس جیت کا سب سے بڑا فائدہ محمد عامر کو ہواہے جس نے انڈیا کی بیٹنگ لائن کے پر خچے اُڑا کر جیت میں اہم کردار ادا کیا اور ماضی پر لگے غلطی کے داغ کو دھو کر اپنے مستقبل کو، کامیاب، تابناک اور شفاف بنا لیا۔
کبھی مہک کی طرح ہم گلوں سے اُڑتے ہیں
کبھی د ھوئیں کی طرح پربتوں سے اُڑتے ہیں
یہ قینچیاں ہمیں اُڑنے سے خاک روکیں گی
کہ ہم پروں سے نہیں حوصلوں سے اُڑتے ہیں

تازہ ترین