• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز میں جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آیا ہے اِس کے تانے بانے ہمیشہ افغانستان سے ہی جاکرملتے ہیں اور اب تووہاں داعش کے قدم جمانے کے شواہد بھی موجود ہیں۔پاکستان سے بھاگے ہوئے دہشت گرد بھی افغانستان کو اپنا ٹھکانہ بنائے ہوئے ہیں۔دونوں ممالک کے مابین 2200کلو میٹر طویل سرحدی علاقہ ،آزاد آمدو رفت ہونے اور موثر بارڈر مینجمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان میں چھپے انتہا پسند اور دہشت گرد وطنِ عزیز کی سلامتی کیلئے مستقل خطرہ ہیں۔دوسری طرف افغان حکومت اپنے ملکی عدم استحکام کا بے بنیاد الزام بھی پاکستان پر لگاتی ہے۔اِس صورتحال کے تناظر میں پاکستان کا ہمیشہ سے اصرار تھا کہ دونوں ممالک میں پائیدار امن و استحکام کے قیام کیلئے بارڈر مینجمنٹ کی جائے ، مگر افغان حکومت کی نیت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سےیہ معاملہ التواء کا شکار رہا ہے۔ملکی سلامتی کو یقینی بنانے اور افغانستان کی طرف سے بارڈر مینجمنٹ کیلئے عدم تعاون کے باعث پاکستان نے از خود پاک افغان سر حد پر باڑ لگانے کا کام شروع کر دیا ہےاور اب تک 37کلو میٹر لمبی باڑ لگائی جا چکی ہے۔ افغانستان کیساتھ ملحق تمام سرحد پر مرحلہ وار باڑ لگائی جائے گی ۔پہلے مرحلے میں زیادہ در اندازی والے علاقوں باجوڑ، مہمند اور خیبر ایجنسیز میں باڑ کی تنصیب مکمل ہو چکی ہے اور دوسرے مرحلے میں باقی تمام سرحد بشمول بلوچستان میں باڑ کا کام مکمل کر لیا جائے گاجبکہ سرحدی نگرانی کو مزید بہتر بنانے کیلئے نئی چوکیاں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔بارڈر مینجمنٹ کے حوالے سے پاک فوج کا یہ اقدام لائق تحسین ہے۔محفوظ پاک افغان سرحد دونوں ممالک کے مشترکہ مفاد میں ہے۔ خطے میں پائیدار امن و استحکام کیلئے بھی سرحدی سیکورٹی کا موثر طور پر مربوط نظام ضروری ہے۔باڑ لگانے سے سرحد پار سے غیر قانونی آمد و رفت ختم ہو جائے گی اور جو لوگ قانونی طور پر بھی پاک سر زمین پر قدم رکھیں گے وہ بھی ضابطے کے پابند ہو جائیں گے۔افغانستان کی طر ف سے ملکی عدم استحکام کا الزام بھی نہیں لگ سکے گا۔

 

.

تازہ ترین