• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیلوں میں قید ہائی پروفائل دہشت گردوں کے مقدمات ملٹری کورٹس بھجوانےکا فیصلہ

کراچی (اسٹاف رپورٹر) جیلوں میں قید ہائی پروفائل دہشت گردوں کے کیسز کو ملٹری کورٹس میں بھجوانے کا فیصلہ کر لیا گیا،سی ٹی ڈی نے کچھ عرصہ قبل سینٹرل جیل میں قید کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ہائی پروفائل ملزمان کو کراچی سے منتقل کرنے کی سفارش کی تھی تاہم ان سفارشات پر عملدرآمد نہیں کیا گیا،ایس ایس پی کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ عمر شاہد حامد نے  میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں سے جیل حکام اور اسٹاف بھی ڈرتا ہے اس لئے جیل کمپلیکس میں آنے جانے میں اتنی آسانیاں ہونے کے باجود کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ انھیں وہاں جانے سے روک سکے،اس سے قبل بھی مختلف کالعدم تنظیموں کے کارندوں کی جانب سے تفتیشی افسران کو دھمکیاں مل چکی ہیںسی ٹی ڈی کو اب تک ممکنہ طور پر قیدیوں کے فرار میں ملوث جیل حکام تک رسائی نہیں مل سکی، جیل سے فرار ہونے والے کالعدم تنظیم کے دو قیدیوں کی تلاش میں چھاپے مارے جا رہے ہیں اور ان کی گرفتاری اولین ترجیح ہے ،انہوں نے بتایا کہ ہم نے کچھ عرصہ قبل ہی ایک لیٹر لکھا تھا جس میں سکھر سے کراچی منتقل کیئے گئے کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کو دوبارہ سکھر منتقل کرنے کا کہا تھا کیونکہ زیادہ تر قیدیوں کا تعلق کراچی سے ہے اسلئے انھیں کراچی میں رہ کر اپنے ساتھیوں سے رابطے کرنے میں آسانی ہوتی ہے تاہم ہماری سفارشات پر عملدر آمد نہیں کیا گیا،انہوں نے بتایا کہ اس وقت 261ہائی پروفائل ملزمان موجود ہیں جن میں سے34کو مختلف کیسز میں سزائیں ہو چکی ہیں جبکہ227ملزمان کے کیسز زیر سماعت ہیں،انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر 15سے20ملزمان کے کیسز ملٹری کورٹس میں بھیجنے کی سفارش کی جائے گی اور اس سلسلے میں اسکروٹنی کی جا رہی ہے،ان کا کہنا تھا کہ ہائی پروفائل ملزمان کا ٹرائل تیزی سے ہونا چاہیئے لیکن یہاں ایسے ملزمان بھی ہیں جنکے کیسز15سال سے چل رہے ہیں اسلئے وہ جیل کے اندر سے بیٹھ کر اپنے نیٹ ورک چلاتے ہیں،تاخیر سے فیصلے ہونے کی وجہ سے ہی ان کیسز کو ملٹری کورٹس میں بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،انہوں نے مزید بتایا کہ مفرور ملزم شیخ ممتاز کالعدم لشکر جھنگوی کے حافظ قاسم رشید کی کھولی میں تھااوراس نے آخری ملاقات اپنے رشتہ داروں سے کی تاہم اب تک اس نے اپنے گھر والوں سے کوئی رابطہ نہیں کیا،انکا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی ملزم فرار ہوتا ہے تو فرار کے بعد کے تین سے چار گھنٹے بہت اہم ہوتے ہیں لیکن یہاں تو جیل حکام کو چوبیس گھنٹے بعد فرار کا علم ہوا جس سے ملزمان نے فائدہ اٹھایا۔

تازہ ترین