• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب یہ تضاد ختم ہونا چاہئے ... خصوصی تحریر…نثار احمدنثار

پاکستانی عوام کے دماغوں پراوران کی رائے پراثرانداز ہونیوالے سیاسی رہنما اور دانشور بھی کیا خوب ہیں۔ جب ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا تھا تو یہی دانشور بعد میں کہتے تھے کہ بھٹو جیسے ذہین شخص کو پھانسی نہیں دینی چاہئے تھی بلکہ ان ممالک کے سپردکر دیناچاہئے تھا جوہمارے قرض معاف کرنے کو تیار تھے اور مرحوم ریاض الخطیب جو سعودی سفیر بھی تھے۔ انہوں نے اس معاملے میں بے حد کوششیں بھی کیں مگر ضیاء الحق کی حکومت نے کہا یہ ہمارے ملک کانجی معاملہ ہے اور آپ کو ہمارے نجی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے پھر پرویز مشرف نے یہ ہی انداز اختیار کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو ملک سے باہر سعودی عرب کے حوالے کیا تھا تو یہی دانشور کہنےلگے کہ یہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کافیصلہ سنایاگیاتوتمام دنیاکے اخبارات نے لکھا کہ پاکستان بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد مسائل کی دلدل میں پھنس جائے گا اور ان اثرات سے چھٹکارا مشکل ہوگا۔ یقیناً اس کے اثرات سے ہم آج تک نہیں نکل سکے قوم واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور اگر افغانستان پر روس حملہ نہ کرنا تو ہمارے عوام کو مشکل ترین مرحلے برداشت کرنے پڑتے۔ جمہوریت، آزادی اظہار، عوامی حقوق کے نام پر ہمارے ساتھ کیاکیا جاتا رہا یہ سب کے علم میں ہے۔ 110سالہ پرانی راولپنڈی جیل میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور منتخب وزیراعظم کی پھانسی کے بعداقوام متحدہ اوردنیا کا میڈیا ہمیں 24گھنٹے برابھلا کہتارہا۔ اس وقت کی حکومت نے ملک کے مشکل ترین حالات کو اہمیت نہیں دی بلکہ اپنی ذات کو اہم سمجھا ۔ اس وقت کے وزیر خارجہ کے مطابق انہیں دنیاکے 24ملکوں میں صرف قرضے ری شیڈول کرانے جانا پڑا اور گیارہ ملکوں سے نئے قرضوں کے لئے بات کرنی پڑی۔ ہماری رائے عامہ کو متاثرکرنے والے لوگوں نے عوام کو شدید ترین عذاب سے دوچار کردیاتھا، غربت افلاس، بے روزگاری، جہالت کیاہماری قوم کامقدر بن چکاہے۔ پانچ فیصد طاقتور لوگ جو خوشحال طبقے سے تعلق رکھتے ہیں مگر پھر بھی اس ملک کے تمام وسائل پر قابض ہیں۔ کیایہ ملک انہی کی خواہشات کے مطابق چلتارہے گا اوروہ صرف الیکشن الیکشن کھیل کر عوامی حقوق پر قبضہ کرتے رہیں گے۔ جمہوریت کے نام پر یہ شب خون کب تک چلے گا۔ یہ تلخ حقائق ہیں کیاعام آدمی کو درپیش مسائل پرکبھی سیاسی رہنمائوں نے یادانشوروں نے کوئی احتجاجی جلوس نکالااورنہ دھرنادیا2کروڑ آنکھیں یہ تماشاگزشتہ نصف صدی سے دیکھ رہی ہیں۔ہاں اتناضرور ہے کہ ملک سے نوازشریف کوباہربھیج کرکچھ لوگوں کی امنگوں کاخون ہوگیاتھابہت سے لوگ سوچ رہے تھے کہ اب ہمارے ساتھ کیاہوگا۔ اگریہ شخص ملک میں رہتاتوہماری سیاست اورلیڈری چلتی رہتی۔ البتہ اگر آمر حکمراں سنجیدگی سے احتساب کرتے توشاید مشکل وقت بھی آجاتا۔ ہماری سیاست بھی عجیب وغریب ہے۔ جب مارشل لا لگتاہے تو جمہوریت کوبلایاجاتاہے اور اس کے راگ الاپے جاتے ہیں اور جب جمہوریت آتی ہے اورآہستہ آہستہ چلناشروع ہوتی ہے تو آمروں کو یہی سیاسی رہنما اور دانشور پکارنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم مشکل حالات میں ہیں۔ خدارا اب اس تضاد کو ختم ہونا چاہئے بلکہ اب سیاسی رہنمائوں اور دانشوروں کو مل بیٹھ کر ا س صورتحال سے باہر نکلنا ہوگا۔ اگر سیاست ہی کرنی ہے تو پہلے اپنی جماعتوں میں کارکنوں کو اہمیت دیں اور پارٹی میں ہر سطح پر جمہوری روئیے اختیار کریں۔ ملک کے حالات دیکھ کر بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ اقتدار میں کسی اور انداز فکر رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہے اور کبھی نہ کھی وہ ضرور اقتدار میں آئیں گے، اب ان کی باری ہے عوام کے لبوں پربس ایک ہی سوال ہے کہ ہمارے دکھوں کا علاج کون کرے گا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ہمارے سیاستدان عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔

 

.

تازہ ترین