• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں اسی ماہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد سازی اور مفاہمت کیلئے چار فریقی رابطہ گروپ کو فعال کرنے پر اتفاق ہوا تھا اس دوران وزیراعظم نواز شریف اور افغان صدر اشرف غنی کی ملاقات میں نئی مفاہمتوں کے طے پا جانے سے اعتماد کی فضا بحال ہوتی دکھائی دے رہی تھی لیکن جب بھی دونوں ملک ایک دوسرے کے قریب آنے لگتے ہیں افغانستان میں کوئی دھماکہ ہو جاتا ہے جس سے اعتماد کی فضا بحال نہیں ہونے پاتی۔ تاہم کشیدگی کم کرانے کے لئے چین پرعزم ہے اور اس مقصد کے لئے چینی وزیر خارجہ خلوص نیت کے ساتھ دو روزہ دورے پر ہفتے کو اسلام آباد آرہے ہیں جہاں وہ مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز سے مذاکرات کے بعد افغانستان جائیں گے اور بات چیت کو آگے بڑھائیں گے۔ چینی وزیر خارجہ کے اس دورے کو اسلام آباد اور کابل کے درمیان اہم ثالثی مشن قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے چار ملکی کور گروپ کے مذاکراتی عمل کی بحالی میں مدد ملے گی اور اس میں امریکہ کی شرکت پر بھی غور ہو گا۔ یہ چین کی طرف سے بہت مثبت اقدام ہے تاہم امریکی وزارت دفاع کا یہ کہنا معنی خیز ہے کہ خطے میں بھارت کا سب سے قابل بھروسہ ساتھی افغانستان ہے جس سے مذاکراتی عمل میں رکاوٹ پڑ سکتی ہے کیونکہ یہ بھارت ہی ہے جو پاک افغان تعلقات کو مسلسل سبوتاژ کر رہا ہے۔ کابل کی بھارت نواز حکومت یہ کیوں بھول جاتی ہے کہ پاکستان آج بھی اس کے چالیس لاکھ مہاجرین کی مہمان نوازی کر رہا ہے اگر بھارت ہی اس کا حقیقی غم خوار ہے تو وہ ان مہاجرین کو واپس کیوں نہیں لے جاتا۔ کابل اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ پاکستان اور افغانستان میں زیادہ تر ایک ہی نسل اور مذہب کے لوگ رہتے ہیں یہاں تک کہ آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں افغانستان امریکی اور نیٹو افواج کی مدد کے باوجود دہشت گردی پر قابو نہیں پاسکا۔ اس مقصد کے لئے اسے پاکستان سے تعاون کرنا چاہئے اور چار ملکی کور گروپ کے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے میں مدد دینی چاہئے۔

 

.

تازہ ترین