• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کل پھر پرانا دوست ملنے آگیا۔میں نے ملتے ہی عرض کیا ’’شاہ جی!کہاں غائب تھے؟‘‘میرے اس سوال پربودی شاہ مسکرایا اور کہنے لگا ’’بڑاخاص کام ہو رہا ہے‘‘ میں نےعرض کیا کہ ’’کوئی ڈھنگ کی بات بتائو۔‘‘ بودی شاہ میری بات کا پہلی مرتبہ برا نہ مناتے ہوئے بیٹھ گیا اورپھرکہنے لگا، ’’سنو! ایک اعلیٰ شخصیت، ایک اہم کاروباری شخصیت کے جہاز پرقطر گئی تھی، دودن وہاں قیام کیا، ناکامی پر وطن واپس لوٹ آئی، قطری آنے کےلئے نہیں مانا‘‘ ، ’’شاہ جی! کون سی شخصیت گئی تھی؟‘‘ یہ سوال بودی شاہ کو بہت برالگا۔ کہنے لگا ’’جتنی بات میں نے بتانا تھی بتا دی ہے تم جو صحافی ہو، تم بڑے عجیب لوگ ہو، تم توبال کی کھال اتارتے ہو، نہیں بتاتا میں نام، تم خود پتا کرلو‘‘ ۔ ’’اچھا بابا نہ بتائو مگر یہ تو بتادو کہ پھر کیا ہوا؟‘‘
بودی شاہ ’’یہ ہوئی نابات، پھرکیاہونا تھا، قطر سے اعلیٰ شخصیت کی واپسی ہوتے ہی نواب شاہ سے حیدرآباد گیس پائپ لائن کا ٹھیکہ منسوخ کردیاگیا۔ یہ ٹھیکہ قطری کمپنی کےپاس تھا۔ یہ ٹھیکہ بہت مہنگا دیاگیا تھا۔ ٹینڈر کو بائی پاس کرکے دیاگیا تھا۔ اب قطر سے واپسی پر حکومت کویہ خیال آیا کہ یہ ٹھیکہ تو بہت مہنگا دیاگیا ہے لہٰذا اسے فوری طورپر منسوخ کردیا جائے۔ قوم کا پیسہ کیوں ضائع کیاجائے۔ حکومت نےقومی بچت کاخیال کرتے ہوئے قطری ٹھیکہ(یعنی قطری کمپنی کو دیا گیا ٹھیکہ) فوری طور پر منسوخ کردیا‘‘ ’’شاہ جی! جے آئی ٹی کا کیا ہوگا؟ وہاں تو شہبازشریف اپنے بھائی نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔ دونوں بھائیوں میں اختلافات کی خبریں بھی دم توڑ گئی ہیں۔ مجھے تو یہ سب ڈرامہ ہی لگتا ہے۔‘‘ بودی شاہ نے اپنے چہرے کو مزیدجلال کے حوالے کرتے ہوئے کہا’’یہی تو تمہاری بے وقوفیاں ہیں۔ تمہیں کسی چیز کا کچھ پتا نہیں۔ تمہیں پتا ہے کہ ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے صدر ٹرمپ کوسختی سے منع کیا تھا کہ وہ دورۂ ریاض میں ایک مسلمان ملک کے سربراہ کو نہیں ملے گا۔ ٹرمپ بڑا سادہ آدمی ہے۔ وہ واقعی اس ملک کے سربراہ کو نہیں ملا۔ اس مسلمان ملک کاسربراہ کچھ دن بعد پھرسعودی عرب گیا توجو فیصلے کرنے والا بندہ ہے وہ تو اسےملا ہی نہیںاور جو ملااس نے صاف صاف کہا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف ہیں۔ جہاں تک آپ نےمیاں شہباز شریف کی بات کی ہے تو میاں شہباز شریف کسی شوق میںساتھ کھڑے نہیں ہوئے۔ یہ کام دراصل حدیبیہ ملز نے کیا ہےورنہ پچھلےچند سالوں سے تو اختلافات عروج پررہے ہیں۔ اختلافات اب بھی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ اپنی اپنی خواہشات کے علاوہ اپنی اپنی اولادوں کی سیاسی ترقی کی خواہشات ہیں۔ جےآئی ٹی کوئی ڈرامہ نہیں ہے بلکہ اس کا سارا کام بالکل درست سمت میں جارہا ہے۔ جے آئی ٹی کے پیچھے عدالت پورے جوبن پر کھڑ ی ہے۔ پوری قوم، اہم اداروں سمیت سپریم کورٹ کے ساتھ ہے۔ بہت لمبا جوڑا حساب کتاب ہونے والا ہے۔ یہ حساب کتاب الیکشن سے پہلے ضرور ہوگا۔اب ظلم کا نظام نہیں چلے گا۔ اب یہ نہیں ہوگا کہ یہاں سے دولت لوٹ کر کہیں اور محلات خریدےجائیں یا بڑے کاروبار شروع کرلئے جائیں۔ کاروبارسےیاد آیا کہ پاکستان کا ایک اہم سیاسی خاندان، ایک ہمسایہ ملک کے اندر ایک بہت بڑی مل لگارہا ہے۔ اس کی بورنگ کا ساراکام 35 سالہ تجربہ رکھنے والے شخص نےکیاہے اور ہاں میں تمہیں جے آئی ٹی کی ایک اور بات بتادوں کہ اس میں انعام الرحمٰن بہت کچھ بتائے گا۔ بہت سی باتیں رحمٰن ملک کریںگے۔کچھ چیزیں انعام الحق کے پاس ہیں اور بہت سی چیزیں رحمٰن ملک کے ہاں موجود ہیں‘‘
’’بودی شاہ جی! آپ کی بتائی ہوئی بہت سی باتیں میں کئی سالوں سے لکھ رہا ہوں مگر آپ کی باتیں پوری ہوتے ہوئے سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ میرے قارئین مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں کہ پتا نہیں کب ہوگا؟‘‘ غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے بودی شاہ بولا’’کون لوگ ہیں یہ، کیا انہیں یہ سب کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ اب تمہاری باتوں پر بڑے بڑے دانشور اعتماد کرنےلگے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو تم لکھتے تھے وہ سچ ثابت ہو رہا ہے۔ باقی ہر کام میں دیر تو لگتی ہے۔تم سمجھتے ہو کہ سومنات کا مندر ایک ہی حملے میں فتح ہوجائے۔ وقت لگتا ہے پیارے۔ بڑے بڑے درختوں کو جڑوں سے اکھاڑنے کے لئے کئی کئی دن لگ جاتے ہیں اور بوسیدہ نظام کے بت گرانے میں ٹائم ضرور لگتا ہے۔‘‘
’’شاہ جی! ویسے اب سپریم کورٹ کوباقاعدہ ترجمان بھرتی کرلینے چاہئیں کیونکہ پچھلے کچھ عرصے سے چند سیاستدان کورٹ سے نکلتے ہی ترجمانی شروع کردیتے ہیں۔ میری سفارش تو خاص طور پر دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے علاوہ مائزہ حمید کے لئے ہے۔ دانیال عزیز اردو کے علاوہ اچھی انگریزی میں ترجمانی کرسکتے ہیں جبکہ عام لوگوں کو سمجھانے کے لئے تھڑے مارقسم کی گفتگو کیلئے طلال چوہدری کافی ہے۔ سافٹ امیج کی خاطر مائزہ حمید کو بھی ترجمانی سونپی جانی چاہئے۔‘‘
بودی شاہ بولے’’ہاں اچھا شغل لگاتےہیں یہ لوگ۔ اب تو انہو ںنےمذاق بھی شروع کردیاہے کہ دواشتہاری سیاستدانوں کی گرفتاری کی جائے۔یہ گرفتاری کا کس کو کہتے ہیں۔ ان کی اپنی حکومت ہے، اپنی انتظامیہ ہے، یہ کیوں نہیں گرفتارکرتے؟ شایدان نونہالوں کوپتا نہیں ہے کہ اب گرفتاریوں کا سلسلہ کسی اور طرف سے شروع ہونے والا ہے۔‘‘
’’شاہ جی!مجھے گرفتاریوں سے یاد آیا کہ آج کل قومی اسمبلی کے رکن جمشید دستی گرفتارہیں۔ ذرا تماشا دیکھئے کہ جمشید دستی پر 400روپے کی بھتہ خوری کامقدمہ بھی ہے۔ مقدمہ کامدعی محکمہ اسپورٹس حکومت ِ پنجاب کا ملازم ہے۔ ایک مقدمہ ٹی ایم اے کو دھمکی کاہے، ایک لڑائی کا مقدمہ اورایک قتل میں معاونت کا مقدمہ، یہ ہیں وہ مقدمات جن کا سامنا جمشید دستی کو کرنا پڑ رہا ہے۔ چنبہ ہائوس میں مرنے والی خاتون کے قتل کامقدمہ پتا نہیں کس پر ہے؟‘‘
خواتین و حضرات! جمشید دستی عام آدمی ہے۔ جاگیرداروں کے دیس سے کسی عام آدمی کا ایم این اے بن جانا معجزے سے کم نہیں ہوتا، اگر وہ ایم این اے بن کر حکمرانوں کی باتیں نہ مانےتو پھر اس کے لئے مشکلات کے پہاڑکھڑے کئے جاتے ہیں۔ ان حالات کا شکار آج کل جمشید دستی ہے۔ دستی کا تازہ ترین قصور کیا تھا۔ صدر مملکت کی تقریر کے دوران جمشید دستی اور امجد علی خان نے حکومت کو امتحان میں ڈالے رکھا۔ امجد علی خان کے خلاف سازش پکڑی گئی، اس نےخود ہمت کی اور ساری سازش کو بے نقاب کردیا جس میں امجد علی خان کی جان بھی جاسکتی تھی۔ میانوالی کا ایم این اےبچ گیا مگر مظفرگڑھ کےایم این اے کوگرفتارکرلیا گیا۔ گرفتاری کے بعد جمشید دستی پر ظلم کے نئےسلسلے کا آغاز کردیا گیا۔ رات دو بجے اس کا جسمانی ریمانڈ لیاگیا۔تین بجے سنٹرل جیل ملتان شفٹ کیاگیا۔
جمشید دستی کے لئے صرف اخبار ہی بند نہیں پنکھااور ملاقات بھی بند ہے۔ اس گرمی میں رمضان المبارک میں جمشید دستی کے مقدر میں پنکھا بھی نہیں ہے۔ اسے سیاستدان توکیا، وکیل بھی نہیں مل سکتے۔ اسے قومی اسمبلی کے اراکین شاہ محمودقریشی ا ور عامر ڈوگر ملنےگئے مگر راستے میں سرکار دیوار بن گئی۔ اسے ملنے کے لئے جاوید ہاشمی جیسابزرگ سیاستدان گیا مگر حکومت ِ وقت نے نہ ملنے دیا۔ ناصرچوہان کی قیادت میں وکلاکی ٹیم ملنے گئی مگر انہیں بھی جواب ملا حالانکہ ہائی کورٹ بنچ ملتان سے ملاقات کے آرڈر ہیں مگر یہاں کون مانتاہے۔ اس کے لئے پروڈکشن آرڈر بھی بے سود ثابت ہوئے۔ اسے جھکانے کی کوشش کی جارہی ہے مگر وہ جھکے گا نہیں۔
سرائیکی وسیب کے لوگوں پر تخت ِ لاہور نے زندگی تنگ کر رکھی ہے۔ امجد علی خان اور جمشید دستی تو قومی اسمبلی کے رکن ہیں، ان سے بستی جیسل کلاسرا کارہائشی رئوف کلاسرا برداشت نہیں ہو رہا۔ وہ تو کتابیں پڑھنےوالا، کتابوں سےدوستی رکھنےوالاآدمی ہے۔ یہ سب کچھ ظلم کے تحت ہو رہا ہے اور اب یہ نظام نہیں چلےگا۔ پھرسے سرورؔ ارمان کا مصرع یاد آیاہےکہ؎
بے گناہی لائقِ تعزیر کر دی جائے گی

 

.

تازہ ترین