• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس سال کے بجٹ کوبیان کرتے ہوئے، یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایک زمانے میں مشرق وسطیٰ میں ملازمت کرنے والے لوگوں کی تعداد اور آمدنی، باقی ممالک سے بہت زیادہ تھی ۔ اس سال وہ تعداد اور آمدنی خطرناک حد تک کم ہوگئی ہے۔ وجوہات میں اول درجے پریہ ہے کہ ہمارے مقابلے میں انڈیا، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا سے لیبر ، ہماری لیبر سے سستی مل رہی ہے۔ دوسرا سبب یہ کہ پاکستانی کاہل ہوگئے ہیں، کام کم اور سگریٹ زیادہ پیتے ہیں۔ علاوہ ازیں کوالٹی ورک بھی کم ہی کرتے ہیں۔ ایک اور شکایت جو ہماری لیبر کے بارے میں امریکہ ہوکہ ملائیشیا، ہر طرف سے بلکہ خود پاکستان کے کارخانوں سے بھی یہی صدا آتی ہے کہ جب کام سے غائب ہونے کا سبب پوچھو تو عمومی جواب یہ ہوتا ہے کہ نماز پڑھنے گیا ہواتھا۔ روزوں میں تود فتروں میں بھی لوگ کام نہیں کرتے، کہہ دیتے ہیںکہ سحری کے وقت سے عبادت کررہے تھے اسلئے اب کام کرنے کی ہمت نہیں ہے۔
یہی لکھتے لکھتے مجھے یاد آیا کہ کوئی پندرہ برس پہلے میں نے دبئی میں چمکتے جھلملاتے لوگوں اور بلڈنگوں کوچھوڑ کر، کسی سے پوچھا کہ جب دبئی بالکل صحرا تھا ، جواس زمانے میں لیبر آئی تھی ،سنا ہے اس نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر ایک کالونی بنائی تھی جواب تک برقرار ہے۔ وہ دوست مجھے اس جانب لے گیا ۔ وہی عالم تھا جو اس زمانے میں سنا تھا ۔ ایک کمرے میں جیسا کہ انگلینڈ میں ہوتا ہے، چار لوگ رہتے ہیں، ایک کام پرجاتا ہے،دوسرا کام سے واپس آتا ہے وہ سوجاتا ہے یہاں پرانے زمانے کا بازار بھی ہے ، جہاں چائے پراٹھے کا ناشتہ ا ن لوگوں کو باآسانی مل جاتا ہے۔ ایک دکاندار سے پوچھا، آپ یہاں کب سے ہیں، بولاتیس برس سے ، سب ملکوں کے مزدور، یہاں مل کر رہتے ہیں۔ پرانے زمانے میں جب یہ کالونی ان لوگوں کے لئے بنی تھی ، وہی ٹوٹے پھوٹے فلیٹ ہیں۔ بازار ہیں، باتھ روم ہیں۔ لیبر کا وہ قبیلہ، جو بہتر جگہوں پر منتقل ہوجاتا ہے، پھر نیا گروپ ان کی جگہ لے لیتا ہے کہ نئے آنے والے ، فیشن ایبل لوگوں اور علاقوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں اوراپنے جیسے غریب غربا کے ساتھ رہنے میں سکون محسوس کرتے ہیں۔ پاکستانی لیبر سال بھر بچت کرنے میں لگی رہتی ہے کہ سال بعد جب وطن واپس جانے کا وقت آئے تو خاندان بھر کی فرمائش پوری کرنے کے لئے ، وہ بچت خرچ کرتے ہیں اور غیر ملکی چیزو ں سےگھروالوں کی آنکھوں میںخوشی دیکھ کروہ سارے دکھ بھول جاتے ہیں جوانہوں نے سال بھر اٹھائے تھے ۔ مہینہ بھر دعوتوں اور پلنگ پر لیٹے لیٹے گزر جاتا ہے مہینے سے چار دن بھی اوپر ہوجائیں توگھر کے لوگ پریشان ہوکر پوچھتے ہیں۔ کیا جانا نہیں، اٹھو اور کام پر جائو ۔ دبئی سے واپس آیا ہوا ایک مزدور میرے ساتھ کراچی سے اسلام آباد آرہا تھا ، میں نے پوچھا ، بچے کیا کرتے ہیں، غصے سے بولا نہ پڑھتے ہیں اور نہ کوئی کام سیکھتے ہیں۔ گھر پر میں نے گاڑی اور موٹر سائیکل، دونوں لیکر دی ہوئی ہیں، مگر مجھے باہر جانا ہوتو ٹیکسی پر جانا پڑتا ہے، گھر پر سب کے لئے روز سیر بھرگوشت پکتا ہے، مجھے بلڈپریشر اور شوگر ہے، میرے لئے بڑے نخرے کے بعد سبزی یادال پکتی ہے۔ وہ بہت دکھی لگ رہا تھا ۔
اب تو اور بھی دکھی حالات ہیں کہ پاکستان کی لیبر اب مشرق وسطیٰ میں کم جارہی ہے۔ جو لوگ باہر کے ملکوں میں خوشحال ہیں۔ وہ تو پاکستان پیسے بھجواتے ہی نہیں۔ کوئی پاکستانی رضا کار انجمن کو ویسے خیرات دیدیتے ہیں۔ یا پھر کوئی اور رستہ، خرچ کرنے کا نہ ہوتو عمرے پر چلے جاتے ہیں۔خواتین زیور بنالیتی ہیں۔
بچت کا سلیقہ نہ ہماری قوم کو ہے اور نہ ہماری خواتین کو عمومی طور پر ہے۔ پچھلے دنوں ایک فلم ایکٹریس کی کہانی ، آپ نے بھی پڑھی ہوگی ، بیٹا اسے اسپتال میں داخل کرکے ، غائب ہوگیا، غیروںنے آکر اسپتال کابل ادا کیا بالکل اس سے ہولناک کہانی میرے ایک دوست نے سنائی ، اس کا ایک عزیز دوست ہارٹ اٹیک کے بعد اسپتال میں تھا ۔ اسکا بیٹا بھی باہر سے آگیا۔ کرناخدا کا کیا ہوا کہ وہ دوست گھر آکر انتقال کرگیا ۔ وہ دوست ا تفاق سےاس کے گھر عیادت کے لئے پہنچا تو دیکھا وہ فوت ہوچکا تھا ۔ اس کا بیٹا ہاتھ میں سوٹ کیس لئے اس کے پاس کھڑا تھا ۔ میرے دوست کودیکھتے ہی جیب میں ہاتھ ڈالے، ڈالرز نکال کر دیتے ہوئے کہا ’’ انکل میری توفلائٹ کا وقت ہوگیا ہے ۔ یہ ڈالرز لیجئےاور پلیز ابا کو دفنا دیجئے گا۔
اتنے ہی ہولناک قصے لکھنے کےبعد ، میرا ذہن مائوف ہورہا ہے۔ پاکستان میں بہت سے بیٹے ، کبھی ماں باپ کو سرونٹ کوارٹر میں رکھتے ہیں تو کبھی خود ہی جاکر ایدھی سینٹر میں داخل کردیتے ہیں۔ ارے میں پاکستانی لیبر کے کم ہونے اور پاکستان میں غیر ممالک سے رقم کے آنے کے قصے سے شروع ہوئی تھی مگر زندگی کیا نقشے دکھاتی ہے اس کا ایک عکس یہ بھی ہے ۔

 

.

تازہ ترین