• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ اقتصادی ماہرین کی رائے ہے کہ موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں اور خاص طور پر موجودہ بجٹ کے ذریعے جس طرح چھوٹے صوبوں کا حشر کیا گیا ہے اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں ملنا مشکل ہے‘ ساتھ ہی انہی پالیسیوں کے نتیجے میں نہ فقط ملک کے اقتصادی مستقبل کے ساتھ کھیلا گیا ہے مگر خود ملک کو چلانا مشکل نظر آرہا ہے‘ میں دوسرے نکتے پر تفصیل سے لکھنا چاہوں گالیکن پہلے سندھ کے ایک اقتصادی ماہر فضل اللہ قریشی نے کوئی تین ہفتے پہلے مجھ سے بات چیت کے دوران اس بجٹ میں خاص طور پر سندھ کے ساتھ کی گئی ناانصافی کے بارے میں کچھ حقائق پیش کیے،ان کا ذکر کروںگا۔ میں اس کالم کی ابتدا ان کے اہم نکات سے کررہا ہوں اور اتنے عرصے تک ان کے یہ اہم نکات شامل نہ کرنے پر میں دل سے ان سے معذرت خواہ ہوں۔ اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں: موجودہ وفاقی بجٹ میں پیش کیا گیا اے ڈی پی ایک ہزار ارب کا ہے‘ اس میں سے پنجاب کے لئے 192 ارب روپے یعنی 43 فیصد اور سندھ کے لئے رقم کا 9 فیصد مختص کی گئی ہے‘ اس کے علاوہ اسلام آباد‘ گلگت بلتستان اور پاکستان بھر کے لئے تیار کیے گئے یا تیار کیے جانے والے پروجیکٹس کے لئے 422 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں‘ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے پروجیکٹس کے لئے 323 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں‘ اس میں سے سندھ کو ایسے پروگرام کے لئے کچھ نہیں دیا گیا‘ اس ادارے کے حوالے سے سندھ کی 29 ارب یعنی 6 فیصد رقم اور پنجاب کے لئے 160 ارب روپے مختص کیے گئے۔ بہرحال یہ با ت بھی سامنے آئی ہے کہ اے ڈی پی کے بارے میں ہونے والے اجلاسوں میں سندھ حکومت کی نمائندگی اعلیٰ سطح پر نہیں ہوتی تھی‘ بس کسی افسر کو اجلاس میں شرکت کے لئے بھیجا جاتا تھا۔ (اس بات پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے) سندھ کے برعکس ان اجلاسوں میں پنجاب کی نمائندگی پنجاب کے وزیر اعلیٰ خود کرتے تھے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اسپیشل ڈویلپمنٹ پروگرام کے عنوان سے کئی پروگراموں کے لئے بلاک ایلوکیشن کی گئی جن کے ’’صوابدیدی‘‘ اختیارات خود وزیر اعظم نے اپنے پاس رکھے ہیں جبکہ یہ بات خفیہ رکھی گئی ہے کہ کون سا پروگرام کس صوبے میں شروع کیا جائے گا اور یہ کہ ان پروگراموں کے لئے الگ الگ کتنی رقم مختص کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر گلوبل ڈویلپمنٹ پروگرام کے لئے 45 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں‘ اسپیشل ڈویلپمنٹ پروگرام کے نام سے شروع کیے جانے والے پروگرام کے لئے 50 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں‘ پی ایم ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کے لئے 18 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور اسپیشل سی پیک پروگرام جو چین کی مدد سے شروع کیا گیا ہے کے لئے 27 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے لئے 36 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور سندھ کو اس پروگرام کے تحت ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا۔ این ایف سی سالانہ کوآرڈنیشن پلان کے لئے سندھ کو مجموعی رقم کا 8 فیصد مختص کیا گیا ہے۔ (نوٹ: میں یہ بات یہاں بتاتا چلوں کہ کیونکہ جن کاغذات پر یہ نوٹس لکھے گئے تھے وہ پہلے تو ہاتھ نہیں آرہے تھے اور جب ملے تو ان کے کچھ حصے پھٹے ہوئے تھے لہٰذا عین ممکن ہے کہ کچھ اعداد و شمار درست پیش نہ ہوسکے ہوں۔ بہرحال اگر کوئی ایسی غلطی پائی گئی تو میں آئندہ کالم میں اس سلسلے میں درست اعداد و شمار پیش کروں گا۔) مجھے یہ کالم خاص طور پر ملک کی معیشت کی زبوں حالی کی طرف ملک کے عوام کی توجہ مبذول کرانے کے لئے لکھنا ہے۔ میں نے اس سلسلے میں دو ہفتے پہلے لکھے گئے کالم میں سب سے پہلے سینیٹ میں بجٹ پر کی گئی بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ نے جو تقریر کی تھی اس کا حوالہ دیا تھا جس میں انہوں نے یہ ’’اعتراف ‘‘ کیا کہ ’’وفاق کے پاس وسائل ہی نہیں ہیں‘‘ مگر بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی بعد میں وفاقی حکومت کے ایک اہم محکمے کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار اور ملک کے آزاد اقتصادی ماہرین کے اس سلسلے میں جو تبصرے شائع ہوئے ہیں وہ تو اور پریشان کن ہیں۔ مثال کے طور پر 12 اپریل کے ایک اخبار میں وفاقی محکمہ شماریات کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان کی تاریخ میں بیوپار میں ہونے والا خسارہ بلند ترین سطح تک پہنچ گیا ہے‘ یہ خسارہ ملک کے بجٹ کا 31 فیصد تک ریکارڈ کیا گیا ہے‘ 9 ماہ کے دوران بیوپاری خسارہ 23 ارب 38 کروڑ ڈالر یعنی 23 ارب ڈالر سے بڑھ گیا ہے۔ محکمہ شماریات کے مطابق جولائی سے مارچ تک برآمد 15 ارب 11 کروڑ ڈالر رہی جبکہ اسی دوران باہر سے درآمد کی گئی اشیاء پر 38 ارب 50 کروڑ ڈالر خرچ آیا۔ محکمہ کے مطابق موجودہ سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران برآمدی بیوپار میں ساڑھے 3 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ بیوپاری خسارہ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 39 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ محکمہ شماریات کے مطابق مارچ میں 1 ارب 80 کروڑ ڈالر کی اشیاء برآمد کی گئیں جبکہ اسی دوران 5 ارب ڈالر سے زائد رقم کی اشیاء باہر سے درآمد کی گئیں‘ اسی دوران 18 جون کے ایک اخبار میں عالمی بینک کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت میں جو استحکام پیدا ہوا تھا وہ اندر ہی اندر سے کھوکھلا ہورہا ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتہ کراچی کی اسٹاک مارکیٹ کے لئے انتہائی ’’خراب‘‘ ہفتہ ثابت ہوا جس کے دوران ایک ہفتے کے دوران ’’بینچ مارک انڈیکس‘‘ کی 2668 پوائنٹس ضائع ہوگئیں۔ ان سب حقائق کی روشنی میں کچھ اقتصادی ماہرین جلد یہ مطالبہ کرنے کا سوچ رہے ہیں کہ عدالت عالیہ اس صورتحال کا سوموٹو نوٹس لے اور ملک کی اقتصادی صورتحال اتنی تباہ ہونے کے حقیقی اسباب کی تحقیقات کے لئے ملک کے ممتاز اقتصادی ماہرین پر مشتمل ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن بنائے۔

 

.

تازہ ترین