• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتہاپسندی و دہشت گردی، سنجیدہ مکالمہ کی ضرورت فکرفردا …راجہ اکبردادخان

10 جون کو محترم پروفیسر مسعود ہزاروی کا مراسلہ کیا مسلمان دہشت گرد ہیں؟ میری رائے میں ایک سوال کی شکل میں شروع ہوا اور کسی واضح جواب کے بغیر ہی ختم ہوگیا اوراگر میں بات نہیں سمجھ سکا تو اسے میری کمزوری کہہ لیجئے اور اگر ان کا اس انداز میں بات کرنےکا مقصد اس اہم موضوع پر دوسروں کی بند سوچوں کے دروازے کھولنا تھے تو اس اپروچ کی قدر کی جانی چاہئے اکثر دینی اداروں سے جڑے بڑے لوگ اس طرح کے مشکل دینی اور کمیونٹی ایشوز پر کسی بحث کا حصہ بننا غیر اسلامی سمجھتے ہیں، دہشت گردی کے وہ مراحل جہاں جانیں لینے اور دینے کی بات ہو تک لوگوں کو پہنچنے کیلئے انتہا پسندی کے کئی مراحل طے کرنے پڑتے ہیں ایسے سفر طے ہونے میں کئی سال لگتے ہیں اس لحاظ سے اس موضوع پر سنجیدہ مکالمہ وقت کی ضرورت ہے کم و بیش پچھلی تین دھائیوں کے دوران جب برصغیر اور کئی افریقی ملکوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آبسی، ان حالات میں وقت نے اس پرامن کمیونٹی کیلئے کئی دینی اور معاشرتی چیلنجز کھڑے کردیئے جنہیں اس وقت کی دینی اور سیاسی قیادت نہ سنبھال سکی، کئی سالوںپر پھیلی افراتفری نے اور انتہا پسند مولویوں کی کارروائیوں  نے Established religious patterhsکو درہم برہم کردیا۔ ایشیائی دینی قیادت نے کانوں میں روئی کے بجھے ڈال لیے اور آنکھوں پر پٹیاں باندھ لیں، برطانیہ کی چھوٹی بڑی 1600مساجد کی اکثریت میں آج بھی غیر معیاری تعلیمی اور تربیتی سلسلے چلتے ہیں۔ جہاں  انتہا پسند سوچیں تمام ماحول پر چھائی ملتی ہیں یہی وجوہات ہیں جو ثبوت مہیا کرتی ہیں کہ 7/7کے خود کش حملوں کے کرداروں  کی تربیت بھی ہمارے ہی کئی مولویوں کے ہاتھوں ہوئی اور ان وقتوں سے اس روش کو زیادہ طاقتور بنایا جاچکا ہے۔ جس کے نتیجہ میں بقول حکومت کے چار سے پانچ ہزار انتہائی مضبوط مسلم انتہا پسند اس ملک کی سالمیت کیلئے خطرہ بن چکے ہیں انٹرنیٹ کا بھی اس خطرناک کام میں حصہ ہوگا مگر یہ ہماری کمیونٹی کے لوگ ہیں جنہیں اس راہ پر ڈال دیا گیاہے۔جہاد فی سبیل اللہ کی اجازت کوئی اسلامی ریاست ہی دے سکتی ہے۔ اس سے باہر پُرتشدد کارروائیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ہماری دینی اشرافیہ کے یہ کہہ دینے سے کہ یہ سب کچھ خوارج کررہے ہیں ایک کمزور بیانیہ ہے، ہمارے ہی بقول کل کی یہ اقلیت آج کی اکثریت کسی طرح بن گئی ہے؟ دیانتداری سے اسباب ڈھونڈنے پر ہمارے درمیان پروان چڑھنے والی سوچیں کئی جواب فراہم کردیتی ہیں۔ صرف برطانیہ میں دوسو سے زائد اپنے کمیونٹی افراد کا ٹیررازم قوانین کے تحت جیلوں میں چلے جانا، درجنوں کیسز کاپینڈنگ ہونا،کیا ہماری غلط کاریوں کی واضع مثالیں نہیں؟ اور 500کے قریب ٹیررانویسٹی گیشنز بھی چل رہی ہیں۔ سیکس گرومنگ کیسز میں ایک سوکے قریب ہمارے نوجوانوں ( اور چند بزرگ بھی ) کئی غیر مسلم خاندانوں کی زندگیاں تباہ کرتے ہوئے جیلوں میں پہنچ چکے ہیں۔ نارتھ میں ایک دو بڑی کونسلز کا تمام جمہوری نظام لپیٹ دیا گیا ہے اور ان کونسلز کو مرکزی حکومت براہ راست چلارہی ہے۔ برمنگھم ، ڈیوزبری اور لوٹن سمیت کئی شہروں میں پرائمری سکول اور مسلمان پرائیویٹ سکول حکومتی نظام تعلیم کے باہر آپریٹ کرنے کی پاداش میں شدید مشکلات کا شکار ہیں بڑے اخبارات میں روزانہ کی پریشان کن خبریں ہماری معیوب کارروائیوں سے بھری ملتی ہیں اور جب ہم جیلوں میں بھی آرام سے وقت گزارنے کے لئے تیار نہیں ان حالات میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمارے نوجوانوں اور خاندانوں کی درست تعلیمی اور اخلاقی سمت متعین کرنے میں ہمارے مولوی حضرات کا میاب رہے ہیں، پچھلے چند سالوں کے دوران جب بھی انتہا پسندی اور پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوتا نظر آیا تو اکثر یہی دیکھا گیا کہ کمیونٹی کے درمیان یہ مرکزی حیثیت رکھنے والے لوگ تحریر وتقریر میں یہی کہتے سنے گئے کہ یہ کمیونٹی سے نکالے گئے (خوارج) ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ہمارا ان سے کوئی تعلق ہے؟ خوارج اگر اقلیت تھے تو دیکھنا یہ ہے کہ پرامن اکثریت والوں کے درمیان وہ چند سالوں میں طاقتور کس طرح بن گئے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج مسلمان کمیونٹی انتہا پسندی کی یرغمالیت میں پھنسی ہوئی ہے۔ جس طرح دہشت گرد بننے سے قبل لوگوں کو کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اسی طرح بہتر کمیونٹی امیج بنانے کے لئے بھی طویل محنت کرنی ضروری ہے۔ اب جب کہ کمیونٹی کی منفی پیش رفت پر زیادہ تشویش بھری صورتحال سامنے آرہی ہے تو ان مسائل کی تہہ تک پہنچنے اور حل تلاش کیے جانے کی کوششوں کو بہتر بنانے کی بھی زیادہ ضرورت ہے۔ مذکورہ چند حوالوں سے جس طرح کمیونٹی امیج کو بڑے نقصان پہنچے ہیں ان سے یہی واضح ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات اپنی اصل روح میں مسلمانان برطانیہ تک نہیں پہنچ رہیں، کہیں نہ کہیں ریکارڈ بدلے جارہے ہیں کسی کو خوراج کہہ دینا وقتی طور پر کسی ایشو سے جان چھڑانے کی کوشش تو ہوسکتی ہے مگر مولائے قدوس کی وحدانیت پر یقین اور اسلام کے دیگر مرکزی اصولوں کو ماننے والوں کو اسلام سے فارغ کردینا اتنا آسان نہیں، آج کے برطانوی مسلم معاشرہ کی ساخت بھی پہلے سے کہیں زیادہ مختلف بنیادوں پر کھڑی ہے۔ ایک پرامن دین سے جڑی کمیونٹی کو انتہا پسندی میں کس طرح دھکیل دیا گیا ہے؟ مولویوں سے جواب مطلوب ہے، جہاں حکومت انتہا پسندی سے نمٹنے کے لئے فکر مند نظرآتی ہے، وہاں اس کایہ عالم ہے کہ اس کے پاس مسئلہ کے حل کیلئے ایک سولہ سالہ پرانی غیر موثر پالیسی Prevent کے سوا کوئی پلان ’’بی‘‘ موجودنہیں اور مسلمان کمیونٹیز کے اور آل کردار کے منفی تاثر سے کسی حوالہ سے بھی اعتبار اور Engagementکا ماحول تیار کرنے سے گریزاں ہے۔ ہمارا دین وطن سے محبت کو ایمان کا حصہ مانتا ہے۔ ہم میں سے اکثریت بشمول انتہا پسند مولوی سرخ برطانوی پاسپورٹ سے جڑی سہولتوں سے مستفید ہونا درست اور اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس حق کے ساتھ ملکی سلامتی اورر پرامن معاشرہ کے حصول کی کوششوں کا فرض بھی جڑا ہوا ہے۔ جب انتہا پسندی کی جگہ ہمارے درمیان اجتہاد کو جگہ مل جائے گی جونہی اس کمیونٹی کے سامنے تحریر وتقریر اور عملی شکل میں اکابرین نے اچھے نمونے رکھنے شروع کردیئے تو بہتریوں کے سفر کے آغاز ممکن بن جائیں گے۔ اگر ہماری مذہبی قیادت کی وفاداریاں اس کمیونٹی کے ساتھ ہیں اگر ہماری بیشتر قیادت کی منازل برطانوی ریاست سے تصادم نہیں اور اگر ان محرمین کی محبت اس ملک اور معاشرے سے ہے تو ہماری کمیونٹی کا یہ طبقہ اس ملک میں بہتر پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ وہ کیا چند اقدامات ہیں جو باآسانی اٹھائے جاسکتے ہیں اور جو بہتریوں کیلئے راہیں ہموار کرسکتے ہیں؟ مساجد کے معاملات کو برٹش صاف ستھرے انداز میں اہلیت اور ٹرانسپیرنسی کی بنیاد پر چلانے کے اقدامات اگر ممکن ہو پائیں۔ مساجد کے اندر اور اردگرد میں انگریزی زبان کو زیادہ سے زیادہ جگہ دی جائے (جس سے دوسروں اور بچوں کو زیادہ اعتماد حاصل ہوسکے گا) اور نوجوانوں کی تربیت کے پروگرام میں برطانوی روزمرہ زندگی سے جوڑنے کی کوششیں چند موثر اقدامات ثابت ہوسکتے ہیں۔

تازہ ترین