• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فنسبری پارک مسجد پر جب سے وین کے ذریعے نمازیوں پر حملہ کیا گیا مجھے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے ہر آنے جانے والی موٹر گاڑی کا ڈرائیور خودکش حملہ آور نظرآتا ہے۔ جی گھبراتا ہے کہ کہیں میرے سامنے والی سڑک سے تیزی کے ساتھ آنے والا ڈرائیور یا عقب سے آنے والی کوئی گاڑی فٹ پاتھ پر نہ چڑھ دوڑے اور اس کا ڈرائیور یہ نعرہ نہ لگادے کہ ’’میں سب مسلمانوں کو قتل کردوں گا‘‘ ہوسکتا ہے یہ محض میرا وسوسہ ہی ہو مگر میں اب کوشش کرتا ہوں کہ ٹرین سٹیشن سے گھر یا گھر سے سٹیشن یا کسی اور جگہ کا پیدل سفر تیزی کے ساتھ طے کرلوں اور اس نئی و خطرناک قسم کی موٹر گردی سے بچ جائوں۔ میں اپنے بچوں اور دوسرے لوگوں کو بھی یہی کہتا ہوں کہ وہ بھی انتہائی احتیاط کے ساتھ فٹ پاتھ کا سفر طے کریں اور پیڈسٹرین کراسنگ سے اس وقت تک سڑک عبور نہ کریں جب تک دونوں جانب کی ٹریفک رک نہ جائے۔ کیونکہ کوئی پتہ نہیں کہ کوئی نسل پرست دہشت گرد کسی کو نقصان پہنچا دے اور بعد میں یہ کہہ کر انصاف کے کٹہرے میں جانے سے بچ جائے کہ وہ نفسیاتی مریض تھا یا اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑے یا علیحدگی کے بعد ذہنی دبائو کا شکار تھا، جیسا کہ فنسبری پارک مسجد پر حملہ کرنے والے دہشت گرد ڈیرن اوسبورن کے بارے میں کہا جارہا ہے۔ بعض انگریزی اخبار اسے ’’سائیکو کیس ‘‘ بعض ذہنی مریض اور بعض مبینہ دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر دہشت گردی کی دفعات کا اطلاق نہیں ہوگا اور معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بعد اسے محض ایک حادثہ قرار دے کر اس کی جان خلاصی کرالی جائے گی مگر اس کیس میں ایسا کرنا شاید ممکن نہ ہوکیونکہ پولیس اور حکومت نے اسے دہشت گردی کا بڑا حملہ قرار دے دیا ہے۔ تاہم دہشت گرد کے بارے میں نرم رویہ رکھتے ہوئے اس کے حق میں دلائل دینے والے مغربی صحافی شاید یہ بھول رہے ہیں کہ اگر اس طریقے سے دہشت گردوں کو بچانے کی کوشش کی گئی تو ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں انہیں بھی ہر کار خودکش کار ہی نظرآئے۔ اس نئی قسم کی دہشت گردی کے لئے نہ تو خودکش جیکٹ بنانے کی تگ و دو کرنی پڑتی ہے اور نہ ہی بم بنانے کے لئے بڑی مقدار میں سامان جمع کرنا پڑتا ہے۔ نہ پولیس برطانیہ کی ہرکار کے ڈرائیور پر نظر رکھ سکتی ہے اور نہ ہی کسی کار کو پیدل چلنے والوں پر چڑھنے سے روک سکتی ہے۔ شاید اب برطانیہ کی مین سٹریم کمیونٹی کو بھی اس خوف کے سائے میں جینا پڑے گا کیونکہ جان تو بہرحال سب کو پیاری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت اور اس کی ایجنسیاں خودکش گاڑیوں سے لوگوں کو بچانے کا حل بھی ڈھونڈ نکالیں تاہم یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔ پہلے تو اس قسم کے واقعات کا الزام براہ راست مسلمانوں پر لگادیا جاتاتھا اور اسے ’’اسلامک ٹیررازم‘‘ کا نام دیا جاتا تھا مگر اب اس میں سفید فاموں کی دہشت گردی بھی شامل ہوگئی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی علاقے میں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ ہم مسلمان چلا چلا کر کہتے تھے کہ ابو حمزہ اور اس کے چیلوں کا کوئی بندوبست کیا جائے مگر وہ تو حکومت کے چہیتوں میں شامل تھااور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جانی تھی۔ اس کے چیلوں نے اسلام کی غلط تشریح کے ذریعے مسلمانوں اور مقامی کمیونٹیز میں تقسیم پیدا کی اور اب نسل پرستوں کی دہشت گردی اپنی بھیانک صورت لے کر سامنے آگئی ہے۔ فنسبری مسجد پر حملے کے بعد نسل پرستوں نے سوشل میڈیا پر خوب جشن منایا۔ وہ اس بات کو بھی بھول گئے یہ حملہ صرف مسلمانوں پر نہیں بلکہ برطانیہ کے سب لوگوں پر ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی آگ ہے کہ وہ جو گرینفل ٹاور میں لگنے والی آگ کی طرح یہ نہیں دیکھے گی کہ کون مسلمان ہے اور کون غیرمسلم! اس حملے کے بعد ایک مثبت پہلو یہ ضرورنکلا ہے کہ فوری طور پر تمام کمیونٹیز اکٹھی ہوگئیں۔ تمام مذاہب کے لیڈر فنسبری پارک مسجد میں جمع ہوئے اور حملے کی مذمت کی۔ معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے خود وزیراعظم تھریسامے مسجد میں پہنچ گئیں جبکہ اپوزیشن لیڈر جرمی کوربن تو رمضان المبارک کے دوران نہتے نمازیوں پر اس دہشت گردی کی داستان سنتے ہوئے اپنے آنسوئوں کو نہ روک سکے۔ کمیونٹیز کے اکٹھے ہونے اور ڈائیلاگ کے لئے شاید یہ ایک بہترین موقع ہے۔

تازہ ترین