• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بائیکاٹ کی ابتدا ... خصوصی تحریر…رائوکامران علی،اوہائیو،امریکہ

’’لارڈ ارنی‘‘، آئرلینڈ کی’میو کاؤنٹی‘ کا بہت بڑا جاگیردار تھا اور ’کیپٹن چارلس بائیکاٹ‘ اُس کا خاص آدمی تھا جو کہ ساری جاگیر کا انتظام سنبھالتا تھا۔ 1880 میں کسانوں کی فصلوں کی پیداوار بہت کم ہوئی تو کسانوں نے لارڈ سے درخواست کی کہ زمینوں کے اس سال کے ٹھیکے میں پچیس فیصد رعایت کر دی جائے مگر لارڈ نہ مانا۔ کسانوں نے فیصلہ کرلیا کہ اب وہ لارڈ کی زمینوں پر کام نہیں کریں گے۔ یہ مہم زور پکڑ گئ یہاں تک کہ کسانوں کے بعد لارڈ کے اصطبل کے ملازمین اور مقامی تاجر حتی کہ ڈاکئے بھی اس مہم میں شامل ہوگئے اور کام چھوڑ دیا۔ کیپٹن چارلس نے دوسرے علاقوں سے کسان بُلائے اور اُن کی حفاظت کے لئے ایک ہزار کے لگ بھگ پولیس اور فوجی بُلوائے لیکن یہ قدم انتہائی مہنگا ثابت ہوا اور فصل کی کمائی سے زیادہ رقم سیکورٹی پر خرچ ہوگئی۔ چونکہ اس سارے عمل میں اصل ظالم یا ولن لارڈ کا بہوبلی کیپٹن چارلس بائیکاٹ تھا اس لئے کسانوں کے نافرمانی کے ان اقدام کو "بائیکاٹ" کا نام دیا گیا اور نیویارک ٹریبیون اور دی ٹائمز جیسے اخباروں نے اس سال ایسی تمام نافرمانیوں کو ’بائیکاٹ‘ کا نام دیا۔ آج کی مہذب دُنیا میں ’بائیکاٹ‘ کسی بھی ظُلم اور ناانصافی کے خلاف سب سے موثر ہتھیار مانا جاتا ہے جس کے سامنے کمپنیاں تو کیا حکومتیں تک گھٹنے ٹیک دیتی ہیں۔تاریخ بڑےبڑے بائیکاٹوں سے بھری پڑی ہے لیکن ایک دلچسپ بائیکاٹ ایک دودھ بنانے والے کمپنی کا ہے جو جولائی 1977ے شروع ہوا اور تقریباً چالیس سال سے جاری ہے۔ یہ بائیکاٹ اپنی کمپنی کے بنائے گئےدودھ کو ماں کے دودھ کا متبادل ظاہر کرنے پر شروع ہوا۔ اس چالیس سالہ دورانیے میں کبھی کبھار یہ بائیکاٹ مشروط طور پر ختم بھی ہوا لیکن جونہی اس کمپنی نے انحراف کیا یہ بائیکاٹ دوبارہ شروع ہوگیا۔ رمضان المُبارک کے شروع میں پاکستان میں ہمیشہ کی طرح پھل مہنگے ہوئے۔ اس مہنگائی کی وجہ سے عوام کو معاشی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ گو کہ مہنگائی کا ذمہ دار، پھل فروش کی بجائے سبزی منڈی کا آڑھتی ہے لیکن لوگ قصوروار پھل فروش کو سمجھتے ہیں کیونکہ سودے بازی اور مُنہ ماری اسی سے ہوتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سوشل میڈیا پر تحریک چلی کہ ان مہنگے پھلوں کا تین دن کے لئے مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ کراچی سے شروع ہونے والی یہ تحریک پنجاب تک پہنچی اور اس بائیکاٹ کے نتیجے میں دو دنوں میں پھل سستے ہوگئے۔ اس تحریک میں شامل ہر پاکستانی مبارکباد کا مستحق ہے۔ تبدیلی خواہ کہیں سے بھی سے آئے بلکہ یہ ’بائیکاٹ‘ وہ تبدیلی ہے جسے دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ’ تبدیلی آگئ ہے‘۔یہ بائیکاٹ ایک تربیت ہے، ایک ’ایکسرسائز‘ ہے بڑے بائیکاٹ کی۔ یاد رہے کہ وکلا نے بھی ایسے چھوٹے بائیکاٹ کرکے وہ یگانگی اور مہارت پیدا کی کہ مُشرف جیسے آمر ’ڈرتا ورتا نہیں ہوں‘ کو ناکوں چنے چبوا دئے اور اس وقت کی حکوت کو بھی نہ چاہتے ہوئے وکلا کی بائیکاٹ کی طاقت کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ اب جبکہ قوم کو اندازہ ہوگیا ہے کہ پھل کھائے بغیر بھی زندہ اور خوش رہا جا سکتا ہے، اگلا ٹارگٹ ہونا چاہئے چینی کا بائیکاٹ اور وہ بھی کم ازکم چند مہینوں کے لئے۔ ہمارے اکثر سیاستدانوں کی بدعنوانی کی طاقت شوگرملوں سے ہے۔ جب چینی کا بائیکاٹ ہوگا تو عوام کو شوگر اور دیگر امراض سے افاقہ ہوگا جبکہ بدعنوانوں کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ اسکے بعد سوشل بائیکاٹ کا مرحلہ آسکتا ہے، رشوت خور، ملاوٹ خور، قبضہ گروپ، کچی شراب کی بھٹیاں چلا کر لوگوں کو مارنے والے، ان سب کا بائیکاٹ کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر جہیز لینے والوں کا بائیکاٹ بہت ضروری ہے۔ کسی بھی بڑی لڑائی کو جیتنے کے لئے تربیت ضروری ہے، قوم کے باشعور انسانوں کو سماج دشمنوں سے جنگ کی شروعات اور پہلی جیت مُبارک ہو۔

 

.

تازہ ترین