• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات آدھی سے زیادہ نکل چکی تھی۔ مجھے خوف تھا کہ خالی سڑکوں پر موٹر سائیکل لہراتا کوئی جنونی نوجوان حادثہ نہ کر دے۔ شیر خان نے دو گھنٹے سرخی پاؤڈر اور لپ اسٹک لگی اداکاراؤں کی قربت میں گزار لئے تھے۔ اس کے تھرما میٹر کا پارہ بلند تھا۔ کہنے لگا۔ آپ آرام سے بیٹھیں۔
آپ کو ڈر کس بات کا ہے؟ میں اسے سمجھا نہیں سکتا تھا کہ جو لوگ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ہوائی فائرنگ سے درجنوں انسان زخمی کر دیتے ہیں، ایک چھ سالہ بچے کی جان لے لیتے ہیں، میرے لئے ان پر بھروسہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ گھر آیا تو بھائی محمود الحسن سے بات ہوئی۔ انہیں بتایا کہ استاد محترم کا کالم پڑھنے کے بعد دن بہت برا گزرا۔ اب بتائیے، کیا کرنا ہے۔ خاموش رہیں یا مایوسی کا کمبل لپیٹ لیں۔ محمود الحسن بحیرہ بنگال کے پانیوں کا پرانا بھیدی ہے۔ کہنے لگا۔ دل نہیں ہارنا، دوسروں کو حوصلہ دیں۔ جو ہو رہا ہے ، وہ ٹھیک نہیں۔ ماضی میں اس سے کچھ مثبت برآمد نہیں ہوا۔ مگر یہ کہ ہم لڑتے بھڑتے یہاں تک آن پہنچے ہیں۔ اچھی بات کہی مگر من سوارت نہیں ہوا۔ رات ختم ہونے کو تھی۔ آپا نور الہدیٰ سے بات ہوئی۔ پدر سری معاشرے میں تشدد، آمریت اور بھیتر کی ویرانی کا تعلق زیر بحث آیا۔ آپا نور الہدیٰ کا خیال بھی یہی تھا کہ پڑھنے والوں کو خبردار کرنا چاہیے کہ جو ہو رہا ہے، اس سے کچھ ٹھیک نہیں نکلے گا۔ ڈاکٹر داؤد رہبر کہتے تھے، "کروں کیا کہ بے وفا نے مری بات ہی نہ مانی"۔ بوڑھے فلسفی نے عمر کے زیاں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ بچپن، لڑکپن، جوانی اور ادھیڑ عمری چار ڈکٹیٹر کھا گئے۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ چار احمق چار نسلوں کا لہو پی گئے۔ نور آپا کا بھی یہی خیال تھا کہ پورے قد سے پیروں پر کھڑے ہو کر آواز لگانی چاہیے۔ بوڑھے فلسفی کو کچھ اور یاد آ گیا۔
15 مئی، 1940 کی شام، ایک نوجوان یہودی عورت ایٹی ہلیسم Etty Hillesum کو ایمسٹرڈم کلب سے نکلتے ہوئے دروازے پر اپنا بوڑھا پروفیسر ولہم باؤنگر Willem Bonger نظر آ گیا۔ اضطراب کی کیفیت میں قدم اٹھاتی مس ایٹی اپنے استاد تک پہنچی۔ سوال کیا کہ کیا انگلینڈ فرار ہو جانا بہتر ہو گا؟ بوڑھے پروفیسر نے جواب دیا، نوجوانوں کو زندہ رہنا چاہیے تا کہ مزاحمت کی جا سکے۔ نوجوان شاگرد نے پوچھا کہ کیا جمہوریت لڑائی جیت سکے گی۔ پروفیسر باؤنگرنے جواب دیا، جمہوریت کو شکست نہیں ہو سکتی لیکن فتح کی قیمت کئی نسلوں کو ادا کرنا پڑے گی۔ طالب علم خاتون کو بوڑھا پروفیسر بہت ٹوٹا پھوٹا اور بے بس نظر آیا۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ پروفیسر نے دبیز نیلے چشمے سے جھانکتی آنکھوں کے ساتھ سر جھکایا اور طالب علم لڑکی کی پیشانی چوم لی۔ اس رات بوڑھے پروفیسر نے خود کو گولی ?مار کر خود کشی کر لی۔ آپا نور الہدیٰ تو سچ بولنے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ کھوئی ہوئی عمروں کا حساب مانگنا کوئی ایسا آسان نہیں، یہ حساب مانگا نہیں جاتا، دینا پڑتا ہے۔
لکھنے والی انگلی لکھنے کے بعد آگے بڑھ جاتی ہے لیکن قلم کی جواب دہی ضرور ہوتی ہے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ کچھ بھلے، نیک اور تراشیدہ طبع افراد قوم کی کشتی کو بھنور سے نکال لیں گے۔ مشرقی پاکستان میں سیلاب آیا تو گورنر اعظم خان مقامی آبادی کا ہیرو بن گیا۔ 1970کے موسم برسات میں ایک سائیکلون آیا۔ متحدہ پاکستان اس سمندری طوفان کی لہروں میں ڈوب گیا۔ یحییٰ خان بھی ڈھاکہ گئے لیکن انتخابات کو چند مہینوں کے التوا میں ڈال کر واپس آ گئے۔ جنرل ضیاالحق کے ساتھ مسکوٹ کے قصے بھائی مجیب الرحمن شامی سے بالمشافہ سن لیجئے۔ نذیر ناجی سے پوچھ لیجئے کہ ارکان پارلیمنٹ کے لئے گریجویشن کی شرط لگاتے ہوئے پرویز مشرف کیا فرمایا کرتے تھے۔ آپ کو اکبر الہ آبادی کا لکھا ہوا محترمہ لیلیٰ کی والدہ اور مجنوں میاں کا مکالمہ یاد آ جائے گا، کجا عاشق، کجا کالج کی بکواس۔
فیض صاحب نے بہت اونچ نیچ دیکھ رکھی تھی۔ چوہدری شجاعت حسین نے تو فقط دریائے چناب کے نیم گرم پانیوں میں ڈبکیاں کھاتے ہوئے عمر گزار دی۔ ہمارے فیض صاحب لکھتے تھے۔
اس وقت تو یوں لگتا ہے، اب کچھ بھی نہیں ہے
ماہتاب، نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
۔۔۔۔ ۔۔۔
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن مرے دل، یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو، جینے کو تو اک عمر پڑی ہے۔
زندگی کا دریا بہتا چلا جاتا ہے۔ نسل در نسل چہرے اس کی لہروں میں ابھرتے اور ڈوب جاتے ہیں۔ بچ رہنے والوں کے لئے کیا اچھا پیغام ہے۔ ہمت کرو، جینے کو تو اک عمر پڑی ہے۔

 

.

تازہ ترین