• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میں فرانس کے نومنتخب صدر نے نوآبادیاتی دورمیں کی گئی زیادتیوں پر سرعام معافی مانگی ہے۔ نوآبادیاتی قوتوں نے جن ممالک پر بھی قبضہ کیاوہاں کے مقامی لوگوں کے لیے یہ قبضہ باعثِ شرم و ندامت ہوا کرتا تھا۔اس میں ان کی پس ماندگی،بے حسی،بے چارگی اور غلامی کی زندگی عیاںہوتی تھی۔کیا ہم نے بھی اپنی پسماندگی پرغور کرنے کے ساتھ ساتھ کبھی اپنی اقدار کا دوبارہ جائزہ لیا ہے تاکہ ایسے حالات دوبارہ پیدا نہ ہوں۔1492ء کا سال نوآبادیاتی دور میں ایک اہم سال قرار دیا جاتاہے کیونکہ اس سال یورپ نے امریکہ اور نئی دنیا کی دریافت کی تھی۔اس دور نے نوآبادیاتی نظام کی بنیاد ڈالی ۔اس مرحلے سے یورپ کی ترقی شروع ہوئی جبکہ اس سے پہلے یورپ کوایشیا اور افریقہ پر کوئی فوقیت حاصل نہیں تھی ۔نوم چومسکی لکھتے ہیں کہ جب کولمبس نے براعظم امریکہ پر قدم رکھا تو یہاں80سے لے کر100ملین لوگ آباد تھے اور یہ تمام لوگ تہذیب یافتہ کاروباری تھے لیکن کچھ ہی عرصہ بعد امریکہ کے 95فیصد لوگ صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔1902ء کی مردم شماری کے مطابق امریکہ میں ریڈ انڈین کی تعداد محض2لاکھ نفوس پر سمٹ کررہ گئی ۔غیر ملکیوں نے مقامی باشندوں میں بیماریوں کواس حد تک پھیلایا کہ میکسیکو کی آبادی کچھ ہی عرصہ میںگھٹ کر صرف دس فیصد رہ گئی اور یوں انگریز نے بڑی آسانی سے ان کی زمینوں پر قبضہ کرلیا۔یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوابلکہ انہوں نے اسی دوران امریکہ سے سونا چاندی اور دوسری قیمتی معدنیات کو یورپ لانا شروع کیا۔ایک اندازے کے مطابق 1664ء کے دوران180ٹن سونا اور1700ٹن چاندی تک امریکہ سے یورپ منتقل ہوچکی تھی۔نوآبادیاتی نظام کی تباہ کاری کی اس سے زیادہ بھیانک تصویر اور کیا ہوسکتی ہے۔ نوم چومسکی لکھتے ہیں کہ1700ء کی دہائی میں سائوتھ ایشیا صنعتی ترقی میں بہت آگے تھا اور 1820ء تک برطانیہ کے صنعت کار یہاں پر لوہا سازی کی تربیت لینے آیا کرتے تھے۔ریل کے انجن بنانے کی جو صنعت بمبئی میں تھی وہ ٹیکنیکل طور پر برطانیہ کے برابر تھی۔برصغیرکی لوہے کی صنعت اور بھی زیادہ ترقی کرسکتی تھی اگر برطانیہ کی جانب سے امپورٹ پر ڈیوٹیاں نہ لگائی جاتیں۔دوسرے لفظوں میں برطانیہ نے دانستہ طور پر ہندوستان کی لوہے اور ٹیکسٹائل کی صنعتوں کو برباد کیا۔برطانیہ نے وہاں ٹیکسٹائل پر ڈیوٹی اوربعد میں مکمل پابندی عائد کردی تھی۔آگے چل کر و ہ لکھتے ہیں کہ ہندوستان تہذیبی لحاظ سے بھی برطانیہ سے بہت آگے تھا۔مثال کے طور پر جتنی کتابیں صرف بنگال میں چھپتی تھیںاتنی تعداد میں اس وقت پوری دنیا میں نہیں چھپتی تھیں۔ڈھاکہ کا شہر اس حد تک ترقی یافتہ تھا کہ اس کا مقابلہ لندن سے کیا جاسکتا تھا۔ انگریز سامراج کے مظالم کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ1765ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال کے ٹیکس کا نظام اپنے ہاتھوں میںلیتے ہی بے تحاشہ ٹیکس لگا کر مقامی آبادی کا خون نچوڑا۔1764ء میں بنگال کے آخری مسلمان حکمران نے 817553پائونڈ ٹیکس وصول کیا تھا جبکہ صرف تیس سال کے اندر ایسٹ انڈیا کمپنی نے مقامی آبادی سے 2880000پائونڈ ٹیکس وصول کرنا شروع کردیاتھا۔ ہندوستان کی صنعتی ترقی کو روکنے کے لیے یورپ اس حد تک گر گیا کہ 1619ء میں برطانیہ کے اندر انڈین کاٹن پہننے کو باقاعدہ جرم قرار دے دیا گیا۔انڈین کپڑا پہننے والے کے لیے 5پائونڈ اور بیچنے والے کے لئے20پائونڈ جرمانے کی سزا عائد کی گئی۔1685ء میں برطانیہ نے ہندوستانی کپڑے پر پہلے دس فیصد اور پھر 1690ء میں بڑھا کر 20فیصد ڈیوٹی عائد کردی اور پھر 1757ء میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال پر قبضہ کیا تو یہ ڈیوٹی 20فیصد سے بڑھا کر 50فیصد کردی گئی۔ جب ہم پاک و ہند (برصغیر)کے نوآبادیاتی نظام کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جہاںہمارے معاشرے کو اس کا کچھ فائدہ ہواوہیں اس نظام نے ہمارے معاشرے کو اقتصادی اور معاشی طور پر مفلس اور پسماندہ بھی بنا نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ٹیکسٹائل صنعت جوایک وقت میں یورپ سے زیادہ ترقی یافتہ تھی اسے انگریز تاجروں اور انگلستان میں ہونے والے صنعتی انقلاب نے تباہ کردیا۔اس سے یہ ہوا کہ برصغیر کی صنعت بجائے مزید ترقی کرتی یا پھلتی پھولتی وہ تباہ ہوتے ہوتے غیر صنعتی ہوگئی۔ برطانوی راج کی بددیانتی کا اندازہ لگائیں کہ1813ء میں انگلینڈ میں ہندوستانی لٹھے پر 78فیصد ڈیوٹی تھی لیکن برطانیہ ہندوستان میں اپنا سارامال بغیر کسی ڈیوٹی کے بیچتا تھا۔ان کی بددیانتی یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ1840ء کے بعد ہندوستانی مال کی یورپ کو ایکسپورٹ پر پابندی لگادی گئی۔نتیجتاََ ہندوستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ،شپ بلڈنگ،دھات ،گلاس اور کاغذکی صنعت تباہ و برباد ہو گئی اور یوں ہندوستان ایکسپورٹ کی بجائے کاٹن،رنگ اور چمڑے کا خام مال پیدا کرنے والا ملک بن کر رہ گیا جبکہ ہندوستان کے تمام ماہر کاریگر برطانیہ منتقل کر دئیے گئے۔یہ خطہ آج تک دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہوسکا۔ یورپین مورخ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم نے انڈیا کو ریلوے ،بنک،ٹیلی گراف کا نظام دیا لیکن وہ یہ بیان نہیں کرتے کہ اس تمام نظام پر خرچ ہونے والا پیسہ ہمارا ہی تھا۔ ایک اندازے کے مطابق نوآبادیاتی نظام کی بدولت برطانیہ نے ہر سال 2سے5ارب ڈالر ہندوستان سے لوٹے یوں اسی لوٹ مار کے سبب برطانیہ کی ترقی ممکن ہوئی۔اس طرح برطانیہ ایک خوش حال ملک جبکہ ہندوستان ایک پسماندہ زرعی ملک بن کررہ گیا ۔آدم اسمتھ جو کہ سرمایہ داری نظام کا بابا آدم کہلاتا ہے نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو دنیاکی سب سے بڑی ڈکیت اور لوٹ مار کرنے والی کمپنی قرار دیا۔اس کی مثال اس نے یوں دی کہ Barrington نامی ایک برطانوی جہاز جب انڈیا کے لئے روانہ ہواتو اس میں 27,300پائونڈ مالیت کا مال تھااور جب یہ جہاز انڈیا سے واپس انگلینڈ گیا تو اس میں 119,304پائونڈ مالیت کا مال لدا ہواتھا۔ مشہور مورخ عرفان حبیب لکھتے ہیں کہ سترھویں صدی میں ہندوستان اور یورپ میں زراعت ،صنعت اور آرٹ و ثقافت ہم پلہ تھے ۔دونوں ریاستوں میں محض فرق یہ تھا کہ ہندوستان کے پاس نیوی اور فوج نہ ہونے کے برابر تھی۔ان کا مزید کہنا ہے کہ سولہویں صدی میں ہندوستان میں 120 بڑے اور 3200 چھوٹے شہر تھے اور ان شہروں میں ہنرمند افراد بڑی تعداد میں آباد تھے۔آگرہ اور فتح پورسیکری لندن سے بڑے شہر تھے جبکہ دہلی کی آبادی پیرس سے زیادہ تھی۔ مشہور مارکسی دانشور سجاد ظہیر نے لکھا ہے کہ برطانوی بڑے فخر سے کہتے ہیںکہ ہم نے ایک لاکھ فوج اور صرف 4400سویلین افسر شاہی کی مدد سے35کروڑ آبادی والے ملک ہندوستان پر بادشاہت کی لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ انہوں نے ہندوستان کو بدقسمتی کی کس حالت میں چھوڑا۔اٹھارویں صدی تک یورپین سیاح چین،جاپان اور ہندوستا ن سے متاثر نظرآتے تھے۔نو آبادیاتی دور میں میں غلاموں کی تجارت، جہازوں کو لوٹنا، دولت اکٹھی کرناقتل و غارت میں ملوث ہونا ناصرف درست قرار دیا گیا بلکہ اس قبیح جرم کو قابل فخر بھی قرار دیا گیا۔ہر قسم کے جرائم کو درست قرار دیئے جانے کے بعد انہوں نے امریکہ،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں مقامی باشندوں کا کھل کر قتل عام کیا۔اس پس منظر میں فرانسیسی صدر کا اپنے نوآبادیاتی مظالم پر دنیا سے معافی مانگنا بہت اہم ہے لیکن اس سے بھی اہم شاید یہ بات ہے کہ 70سال گزر جانے کے باوجو د اب بھی ہمارے ہاں ریاستی ڈھانچہ نوآبادیاتی نظام کی بنیادوں پر ہی استوار ہے۔ ریاست نے اپنے اختیارات جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے سپرد کررکھے ہیںاور اب یہی طبقہ جو تعداد میں ایک فیصد سے بھی کم ہے نوآبادیاتی آقائوں کی طرح 99فیصد عوام کا خون نچوڑنے میں مصروف ہے جس کی وجہ سے لوگوں اور ریاست کے درمیان نہ صرف یہ کہ کوئی تعلق پیدا نہیں ہوسکابلکہ جمہوریت بھی ارتقا پذیر نہیں ہوسکی ۔

 

.

تازہ ترین