• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے تاریخ رقم کردی۔ اس فتح کو پورے ملک میں منایا گیا۔ کچھ حلقوں کاردعمل بھارت کے حوالے سے مناسب نہیں تھا۔ بھارت کی طرف سے میچ کے شروع ہونےسے پہلے جو ردعمل تھا اور ان کو جو مان تھا اور جس طریقہ سے پاکستان کرکٹ ٹیم کا مذاق بنایا گیا، وہ ہی ان کے لئے خفت اور شرمندگی کا باعث بنا۔ پاکستان کے کھلاڑی پورے جوش و جذبے اور جنون سے میدان میں اترے۔ اگرچہ ٹاس بھارت جیت گیا تھا مگر جب بھارتی کپتان نے پاکستان کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی یافیصلہ کیا تو اس ہی وقت پانسا پلٹ چکا تھا۔ پاکستان ٹیم کے کوچ مکی آرتھر کو اپنے بائولرز پر بہت اعتماد تھا۔ وہ بھی سوچ رہا تھا کہ بھارت کو پہلے کھیلنے کا موقع ملنا چاہئے مگرفیصلہ بھارت نے کرنا تھا۔ وہ ٹاس جیت کر پہلے مرحلہ میں تو کامیاب ہو ہی چکے تھے۔ اوول کے میدان میں پاکستان کے تماشائی بھی غیریقینی صورتحال سے دوچار تھے جبکہ بھارتی تماشائی پراعتماد اور نعرے بازی میں اپنی ٹیم کو ہلاشیری دے رہے تھے۔ پاکستان کے کپتان سرفراز کے لئے پہلے کھیلنے والا معاملہ چند لمحوں کےلئے باعث ِ تشویش ضرور بنا پھر اس وقت اس کی ٹیم کے ایک رکن نے اس کو یاددہانی کروائی ’’سرجی! فکر نہ کریں‘‘ رمیض راجہ نے بھی مشورہ دیا تھا کہ ہم کو پہلے کھیلنے کافائدہ ہوگا۔ بس اس بات پر کپتان سرفراز احمد کو فکر نے آزاد کردیا۔ جب ڈریسنگ روم میں تمام کھلاڑی اکٹھا ہوئے اور مل کر دعا کی اورہمارے بلے باز میدان میںاترے تو پورے پاکستان میں ایک امید اور یقین کے ساتھ کھلاڑیوں کے لئے دعا کی جارہی تھی۔ کسی کوبھی نہیں معلوم تھا کہ یہ وقت دعا کی قبولیت کا ہے۔
پھر میدان جم گیا۔ بھارتی بائولرز نے اپنی کارروائی شروع کی۔ پہلے چند اوورز میں رن مسلسل بنتے جارہے تھے۔ پاکستان کے کھلاڑی کھل کر کھیل رہے تھے۔ بھارتی کپتان حیرانی اور پریشانی سے دوچارتھا۔ اس کی باڈی لینگوئج اور رویہ بھارتی ٹیم کے ممبروں کے لئے بھی حیران کن سا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ پہلے دس اوورز کے بعد بھارتی کپتان کو اندازہ ہو چلا تھا کہ میدان ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ دوسری طرف اوول کے میدان میں تماشائی پاکستان کے کھلاڑیوں کو ہر بال پر خوب داد دے رہے تھے۔ ان کے بیچ بھارتی تماشائی داد دینے کے معاملہ میں کنجوس تو تھے مگر ان کو میچ اور کھیل کا مزا آ رہا تھا۔ بھارتی بائولرز نے اپنی تمام ترصلاحیتیں استعمال کیں۔ ان کے کوچ نے پانی کے وقفہ میں ان سے ضروری مشاورت بھی کی مگر بھارتی کپتان شدید مایوسی اور گھبراہٹ کا شکار تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ پچ (میدان) پاکستان کا ساتھ دے رہی ہے۔
پاکستانی کھلاڑی رن پر رن بناتے جارہے تھے اور جو رن ریٹ تھا اس کے حساب سے تو 340 کے لگ بھگ رن بن سکتے تھے اور پھر پاکستان نے مقررہ اوورز میں 338رن بنا ہی ڈالے۔ اتنے رنز ان کے تصور میں نہیں تھے۔ فیلڈنگ سے پہلے ڈریسنگ روم میں تمام کھلاڑی عمران خان کا تذکرہ کر رہے تھے۔ اس میچ سے پہلے سابق کپتان عمران خان نے پاکستانی ٹیم کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اس پچ (میدان) پر پہلے کھیل کر میدان مارسکتے ہیں۔ سابق کپتان عمران خان نے جومشورہ دیاوہ بھی قبولیت کی ایک گھڑی تھی ورنہ ہماری ٹیم تو پہلےبھارت کو کھلانا چاہتی تھی۔ بھارت کےہاں کیا منصوبہ بندی تھی؟ اس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ ٹاس جیت کر انہوںنے پاکستان کوکھلایا۔ ان کو بھی اپنے بائولرز پر بہت اعتماد تھا اور اس ٹرافی میچ میں ان کےبائولرز کاعمومی کردار خاصا جارحانہ سا تھا اور وہ پاکستان کوکم رنز پر آئوٹ کرکے میدان مارنا چاہتے تھے۔ پہلے کھیلنے کی صورت میں ان کو خطرہ تھاکہ پاکستانی بائولرز ان کو زیادہ دیر تک میدان میں رہنے نہ دیںگے۔ مگر اللہ نے ان کو فیصلہ کرنے کا موقع دیا۔ عجب بات ہوئی ٹاس وہ جیتے اور میدان ہم!
پاکستانی ٹیم گروپ میچ میں بھارت سے ہارچکی تھی پاکستانی کرکٹ کے بہت سارے ناخدا کافی مایوسی کا شکار تھے۔ بھارت سے ابتدائی میچ ہارنے کے بعد جب میڈیا نے کرکٹ کےکامیاب منصوبہ ساز نجم سیٹھی صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے کچھ کہنے سے انکار کردیا اوردوسری طرف پاکستانی کرکٹ بورڈ شدید تنقید کا شکار تھا۔ پاکستان کے پاس موقع تھا کہ وہ دوبارہ اپ سیٹ کا شکار نہ ہو۔ کھلاڑی بھی زیادہ مایوس نہیں تھے اور مقام شکر ہےکہ وہ ابھی تک کسی اندرونی سیاست کا شکار بھی نہیں ہوئے۔ پاکستانی فوج کے ایک کوچ نے کچھ عرصہ پہلے کاکول میں پاکستانی ٹیم کی تربیت کی تھی۔ جب پاکستان ٹرافی کے پہلے میچ میں بھارت سے ہارا تو وہ فوجی کوچ بہت حیران تھا۔ اس کی منطق بھی عجیب تھی۔ یہ ہار ضروری تھی اگر بھارت کو ہرا دیتے تو ہماری ٹیم میں تکبر آ جانا تھا اور تکبر اللہ کو پسند نہیں۔ ہارنے ہی نے ہماری ٹیم کو مزید مضبوط کیا اور ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا اور جونئےکھلاڑی نجم سیٹھی کی منصوبہ بندی کی وجہ سے میدان میںاترے وہ بھی مایوس نہیں تھے اور ڈٹ کر لڑنے والی کوشش نے پاکستان کو سرخروکیا۔
شکر ہے ایک عرصہ کے بعد قوم کو خوشی ملی ورنہ ملکی سیاست نے پاکستان کے عوام کو شدید مایوسی کاشکار کر رکھا ہے۔ کرکٹ کے اس ٹرافی کے دنوں میں پاناما کامقدمہ بھی صرف ِ نظر ہوا۔ ہماری اشرافیہ اور سیاست دان کھیل میں صرف اورصرف فتح کو ہی پسند کرتے ہیں۔ اس کی وجہ ایک تو ان کا اپنا کردار ہے اوردوسرے وہ میدان کےکھلاڑی نہیں وہ سیاست کے کھلاڑی ہیں اور سیاست بھی ایسی جس میں دھونس اور دھاندلی ہی کامیاب کروا سکتی ہے۔ جب UKمیں یہ ٹرافی میچ ہو رہے تھے توہمارے ہاں پاناما کامیچ بڑے کھلاڑیوں کے درمیان ہو رہا تھا۔ جس طرح پاکستان کی سرکار نے ابتدائی دنوں میں ٹرافی میچ کو نظرانداز کئے رکھا اور کھلاڑیوں کوحوصلہ تک نہ دیا اور دوسری طرف پاکستان کے میدانِ سیاست میں سپریم کورٹ کی جی آئی ٹی کو نشانہ ستم بناتے رہے اور سپریم کورٹ کے ظرف کو آزماتے رہے اور میدان سیاست کے نوآموز کھلاڑی جو کسی ٹیم کا ابھی حصہ نہیں، اپنی رائے سے میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان کے لئے پریشانی کا باعث بنتے رہے۔ مگراس بار پاناما کا میچ فیصلہ کن ہونے جارہا ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی پاکستان واپس آچکے ہیں۔ پوری قوم ان کی کاوش پر خوش ہے۔ ان کو انعامات سے بھی نوازا جارہا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کی سیاست کو ختم کرکے کھیل کو فروغ دیا جائے۔ اس دفعہ منصوبہ ساز جنا ب نجم سیٹھی تھے۔ ان پر بہت سار ےالزامات لگے مگر انہو ںنے کرکٹ کے کھیل کوفروغ دیا اورکرکٹ کو عزت ملی۔ دوسرے ملک بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میں کرکٹ مقبول کھیل ہے۔ اب شہروںکی ٹیموں کو میدان میں آنا چاہئےاور لیگ کے میچوں کو فروغ دیناچاہئے۔ اس مرحلہ پر نجم سیٹھی صاحب کو مکمل طور پر اختیار دینے کی ضرور ت ہے۔ اس سے پاکستان دوبارہ بین الاقوامی کرکٹ کی ضرورت بن جائے گا اور بین الاقوامی کرکٹ کونسل پاکستان کی اہمیت اور حیثیت مان بھی رہی ہے۔ ہم پاکستان میں کچھ نہیں بدل سکتے مگر کرکٹ میںتو بدل سکتے ہیں۔ اب بدلنے کا وقت قریب ہے۔ دوستوں کےلئے مشورہ ہے مشتری ہوشیار باش۔

 

.

تازہ ترین